سرینگر (نیوز ڈیسک) : دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی درخواست پر سماعت کی جس میں قتل اور عسکریت پسندی کی مالی اعانت کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے علیحدی پسند لیڈر محمد یاسین ملک کے لیے سزائے موت کی سفارش کی گئی تھی۔ کورٹ کو یاسین ملک کی جانب سے ذاتی طور ہی کیس کی پیروی کرنے اور از خود اپنے دلائل پیش کرنے کی اطلاع دینے کے بعد جسٹس سریش کیٹ کی سربراہی والی بنچ نے کیس کی اگلی سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
آج کی سماعت کے دوران یاسین ملک ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیش ہوئے۔ جب عدالت نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی طرف سے دلائل پیش کرنے کے لیے کسی وکیل کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، تو علیحدگی پسند تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ نے کہا کہ وہ اپنا مقدمہ خود پیش کریں گے اور خود دلائل بھی دیں گے۔
این آئی اے کی جانب سے انہیں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں پیش کرنے پر یاسین ملک نے دلیل دی کہ عدالت میں انہیں جسمانی طور حاضر کیے جانے کے دوران کبھی بھی امن و امان کو صورتحال کبھی نہیں رہی۔ ہائی کورٹ نے ملک کو بتایا کہ انہیں ورچوئل موڑ کے ذریعے پیش کرنا عدالت کا حکم ہے جسے وہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ ملک نے کہا کہ وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہی اپنے دلائل پیش کریں گے تاہم ان کی درخواست کو ریکارڈ (نوٹ) کیا جانا چاہیے۔
اس سے قبل 11 جولائی کو ہائی کورٹ کے جج جسٹس امیت شرما نے 2010 میں این آئی اے کی جانب سے پراسیکیوٹر ہونے کی بنیاد پر کیس کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ یہ مقدمہ جسٹس پرتیبھا سنگھ کی بنچ میں درج کیا گیا تھا۔
ہائی کورٹ نے این آئی اے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے 29 مئی 2023 کو یاسین ملک، جو تہاڑ جیل میں بند ہے، کو نوٹس جاری کیا تھا۔ سماعت کے دوران این آئی اے کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے یاسین ملک کے خلاف الزامات کو درست پایا ہے۔ انہوں نے تبصرہ کیا تھا کہ ’’یہ عجیب بات ہے کہ کوئی ملک کی سالمیت کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے اور بعد میں کہتا ہے کہ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور مقدمے کا سامنا نہیں کرتا‘‘۔ انہوں نے کہا تھا کہ این آئی اے کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت ہیں کہ ملک نے کشمیر کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔
مہتا نے کہا تھا کہ یاسین ملک جموں و کشمیر میں مسلسل مسلح بغاوت کر رہا تھا اور فوجی اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا اور علیحدگی پسندی کی بھی وکالت کرتا تھا۔ مہتا نے کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 121 کے تحت حکومت ہند کے خلاف جنگ چھیڑنے کی صورت میں یاسین ملک کے لیے سزائے موت کا التزام ہے۔ مہتا نے یہ بھی کہا تھا کہ یاسین ملک فضائیہ کے چار اہلکاروں کے قتل میں ملوث تھا اور اس کے ساتھیوں نے اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کر لیا تھا۔
یاد رہے کہ 25 مئی 2022 کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے قتل اور عسکریت پسندی کی مالی اعانت کے معاملے میں محمد یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے یاسین ملک پر یو اے پی اے کی دفعہ 17 کے تحت دس لاکھ روپے جرمانہ، دفعہ 18 کے تحت دس سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ، دفعہ 20 کے تحت دس سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ، دفعہ 38 اور 39 کے تحت پانچ سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ 10 مئی 2022 کو یاسین ملک نے مقدمے میں قصوروار ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ملک اس وقت دہلی کے تہاڑ جیل میں بند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یاسین ملک سزائے موت کیس، جج نے کیا خود کو سماعت سے علیحدہ - Yasin Malik