سرینگر (جموں کشمیر) : شمالی کشمیر کی بارہمولہ پارلیمنٹ نشست پر انتخابی جنگ اُس وقت مزید دلچسپ ہو گئی ہے جب جموں کشمیر اپنی پارٹی نے پیپلز کانفرنس کے امیدوار سجاد لون کی حمایت کا اعلان کیا۔ لون نے ہفتے کے روز اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری پر زور دیا کہ ان کی پارٹی کو بارہمولہ پارلیمنٹ کی نشست کے لیے سجاد لون کی حمایت کرنی چاہیے، جسے اپنی پارٹی نے قبول کر لیا اور اعلان کیا کہ ان کی پارٹی ’’روایتی پارٹی کو شکست دینے‘‘ کے لیے لون کی حمایت کرے گی، بخاری نے نیشنل کانفرنس کی جانب اشارہ کیا۔ یاد رہے کہ بارہمولہ نشست کے لیے مئی کی 20 تاریخ کو پانچویں مرحلے کے تحت ووٹنگ ہوگی۔
بارہمولہ نشست پر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کا سجاد لون کے ساتھ مقابلہ ہوگا۔ اپنی پارٹی کا لون کی حمایت کے اعلان نے این سی اور پی سی کے درمیان انتخابی جنگ کو مزید دلچسپ اور گرم کر دیا ہے۔ این سی اور پی سی 70 کی دہائی سے شمالی کشمیر کے کپوارہ میں سیاسی حریف رہے ہیں۔
سجاد غنی لون گزشتہ دو ماہ سے بارہمولہ پارلیمنٹ سیٹ پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی نے سب سے پہلے لون کی ہی امیدواری کا اعلان کیا تھا جبکہ نیشنل کانفرنس نے کئی اجلاسوں کے بعد عمر عبداللہ کو اس نشست کے لیے نامزد کیا۔ انتخابات کے اعلان کے آغاز سے ہی دونوں حریف (این سی اور پی سی) تقریباً روزانہ ایک دوسرے کی تنقید میں مصروف ہیں۔ 18 لاکھ ووٹرز کے ساتھ بارہمولہ پارلیمنٹ سیٹ 18 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے، جو سرینگر کے مضافات میں واقع بڈگام سے لے کر کپوارہ کے کرناہ اور بانڈی پورہ ضلع میں گریز تک پھیلی ہوئی ہے۔
لون کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کے رہنما کو کپوارہ کی چھ اسمبلی نشستوں میں مضبوط حمایت حاصل ہے۔ ان چھ نشستوں میں سے ہندوارہ اور کپوارہ پر 2014 کے انتخابات میں پی سی کے امیدواروں نے جیت درج کی تھی۔ خود لون اور ان کے نائب بشیر ڈار نے این سی کے چودھری رمضان اور میر سیف اللہ کو شکست دی تھی۔
بارہمولہ ضلع کی کل سات نشستیں، بانڈی پورہ کی تین اور بڈگام و بیروہ کی دو نشستوں پر لون نے الطاف بخاری اور ڈی ڈی سی چیئرمین بگگام نذیر خان، پی ڈی پی کے سابق ایم ایل اے نظام الدین بھٹ سمیت دیگر رہنماؤں کی حمایت حاصل کی ہے۔ گلمرگ میں جموں کشمیر اپنی پارٹی کے کئی رہنما ہیں جن میں غلام حسن میر قابل ذکر ہیں جو سابق قانون ساز رہے ہیں جبکہ رفیع آباد کے دلاور میر۔ اور کرناہ میں راجہ منظور اور جاوید مرچال جو پی ڈی پی - بی جے پی حکومت میں قانون ساز تھے، کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور بانڈی پورہ حلقے کے سابق وزیر عثمان مجید بھی اپنی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
عثمان مجید پارلیمنٹ انتخابات میں حمایت کے لیے سجاد لون کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ عثمان مجید بارہمولہ سے لون اور عمر کے خلاف انتخاب لڑنے کے لیے نہ صرف پر عزم تھے بلکہ اس کی تیاری بھی کر رہے تھے۔ تاہم، ذرائع نے بتایا کہ، اپنی پارٹی، بی جے پی کے جنرل سیکریٹری ترون چگ کے زور پر لون کو اپنی حمایت کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے۔ عثمان اب بھی غیر یقینی کے شکار ہیں کہ انہیں کس امیدوار کی حمایت کرنی چاہئے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ کارکنوں سے تجاویز طلب کریں گے کہ انہیں کس امیدوار کی حمایت کرنی چاہیے۔
چونکہ لون دوسری جماعتوں کی حمایت پر منحصر ہے، نیشنل کانفرنس اپنے پارٹی کیڈر اور رہنماؤں پر انحصار کر رہی ہے جو پورے حلقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ این سی کے تمام 18 اسمبلی حلقوں میں رہنما ہیں جو سابق حکومتوں میں قانون ساز اور وزیر رہ چکے ہیں۔ جہاں لون کپوارہ میں زبردست مہم چلا رہے ہیں اور رائے دہندگان کو مستحکم کرنے کی روزانہ کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، وہیں نیشنل کانفرنس شہروں میں اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی میٹنگیں کر رہی ہے۔
پی ڈی پی کے سابق راجیہ سبھا رکن فیاض میر کے انتخابی جنگ میں کود پڑنے سے رائے دہندگان مزید تقسیم ہوں گے۔ تاہم اس نشست پر اہم جنگ لون اور عمر کے درمیان ہے۔ اور کیا اپنی پارٹی اور دیگر رہنما عمر عبداللہ کے خلاف لون کی حمایت کریں گے؟ یہ ای وی ایم مشینیں 4 جون کو ظاہر کریں گیں جب ملک بھر میں قریب ساڑھے پانچ سو ایم ایل اے کی جیت کا اعلان کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: میں الطاف بخاری سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ شمالی کشمیر میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرے: سجاد لون - baramulla lok sabha seat