سرینگر (جموں کشمیر) : یونین ٹیریٹری میں گزشتہ 35 برسوں کے مقابلے میں لوک سبھا انتخابات 2024 میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ، مرکز کے زیر انتظام علاقے کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی جانب نشاندہی کر رہا ہے۔ 58.46 فیصد اہل ووٹرز نے حق رائے دہی کا استعمال کیا جبکہ اس سے قبل سال 2019 کے عام انتخابات میں محض 19.16 فیصد ٹرن آؤٹ ہوا تھا۔ سرینگر لوک سبھا سیٹ پر ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھ کر 38.49 فیصد ہوگیا ہے جو 2019 میں 14.43 فیصد اور 2014 میں 25.86 فیصد تھا۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان 4 جون کو کیا جائے گا۔
13 مئی کو رائے دہندگان کے لیے سرینگر حلقے میں 2,135 ووٹنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کی گئی جس کی راست ویب کاسٹنگ بھی کی ئی۔ اس عمل کو پر امن طور منعقد کرنے کے لیے 8,000 سے زیادہ ووٹنگ عملہ کو تعینات کیا گیا تھا۔ 1962 میں قائم کی گئی سرینگر پارلیمانی سیٹ حد بندی کے بعد پانچ اضلاع - سرینگر، بڈگام، گاندربل، پلوامہ اور شوپیاں - پر محیط ہے۔ اس نشست پر17.47 لاکھ سے زیادہ ووٹرز ہیں۔ سرینگر کے سبھی 18 اسمبلی حلقوں بشمول گاندربل ضلع میں کنگن اور گاندربل؛ ضلع سرینگر میں حضرت بل، خان یار، حبہ کدل، لال چوک، چھانہ پورہ، زڈی بل، عیدگاہ اور سنٹرل شالٹینگ؛ ضلع بڈگام میں خان صاحب، چرار شریف اور چاڈورہ؛ ضلع پلوامہ میں پامپور، ترال، پلوامہ اور راج پورہ؛ اور ضلع شوپیاں میں پولنگ مراکز قائم کیے گئے تھے۔
یہ انتخابات خاص طور پر اس لحاظ سے بھی قابل ذکر تھے کیونکہ دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے نفاذ کے بعد وادی میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تھے ۔ سرینگر سیٹ کے لیے امیدواروں کی تعداد 2019 میں 12 سے دوگنی ہو کر اس سال 24 ہو گئی ہے۔ دارالحکومت دہلی، جموں اور ادھم پور میں 52,100 کشمیری مہاجر ووٹرز کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے خصوصی پولنگ اسٹیشن قائم کیے اور پوسٹل بیلٹ کے اختیارات بھی فراہم کیے۔ ان میں جموں میں 21 ادھم پور میں ایک اور دہلی میں چار خصوصی ووٹنگ اسٹیشن شامل تھے۔
سری نگر حلقہ تاریخی طور پر جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس (جے کے این سی) کا گڑھ رہا ہے جس نے اس سیٹ کے لیے ہوئے 13 انتخابات میں سے 10 میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور بیگم اکبر جہاں عبداللہ جیسی ممتاز شخصیات نے اس حلقے کی نمائندگی کی ہے۔ تاہم کانگریس پارٹی کے غلام محمد میر نے 1996 میں جیت کے ساتھ اس رجحان کو توڑ دیا اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے طارق حمید قرہ نے 2014 میں فتح حاصل کی تھی۔
اس سال کے انتخابی مقابلے میں نیشنل کانفرنس (این سی) کے آغا سید روح اللہ مہدی، پی ڈی پی کے وحید الرحمان پرہ اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی (اے پی) کے محمد اشرف میر ممتاز امیدواروں میں شامل ہیں میر کو سجاد غنی لون کی جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے تین دہائیوں میں پہلی بار تینوں کشمیری حلقوں - سرینگر، بارہمولہ اور اننت ناگ-راجوری میں کسی بھی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ہے۔
آغا سید روح اللہ مہدی کی نامزدگی خبروں میں رہی، کیونکہ وہ بڈگام اسمبلی حلقہ میں ایک ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہیں لیکن انہوں نے سرینگر کی نشست کے لیے انتخاب لڑا۔ انہوں نے بارہمولہ لوک سبھا سیٹ کے لیے اپنی پارٹی کے امیدوار عمر عبداللہ کو اپنا ووٹ ڈالا، جبکہ عمر عبداللہ نے سرینگر کے لال چوک اسمبلی حلقہ میں مہدی کو ووٹ دیا۔
چیف الیکٹورل آفیسر پانڈورنگ کے پولے (P K Pole) کے مطابق اس سال 8.76 لاکھ مرد، 8.72 لاکھ خواتین اور 64 تیسری جنس کے ووٹرز کے علاوہ 11682 معذور افراد اور 705 صد سالہ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ خصوصی علاقوں میں خواتین کے لیے گلابی پولنگ اسٹیشن، معذور افراد کے زیر انتظام بوتھ اور ماحولیاتی بیداری کو فروغ کے لیے گرین پولنگ اسٹیشن شامل تھے۔
گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں امسال کے ان انتخابات میں کسی بھی علیحدگی پسند لیڈر یا جماعت نے الیکشن بائیکاٹ کی کال نہیں دی۔ بیشتر علیحدگی پسند لیڈران جیلوں میں قید یا خانہ نظر بند ہیں تاہم صرف میرواعظ عمر فاروق ہی ایک ایسے لیڈر ہیں جو جیل میں قید نہیں۔ واحد آزاد علیحدگی پسند رہنما اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے بھی بائیکاٹ کی وکالت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے ’’بے سود‘‘ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا این سی پھر سے سرینگر لوک سبھا سیٹ اپنے نام کر پائے گی؟
بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مبینہ گرفتاریوں سے متعلق کیے گئے خدشات کے باوجود، الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مساوی سلوک کی یقین دہانی بھی کی۔ کسی بھی امکان صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر تین درجے کا حفاظتی انتظام نافذ کیا گیا تھا اور حفاظتی دستوں کے ذریعے خصوصی نگرانی بھی کی گئی۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس (کشمیر زون) وی کے بردی نے تصدیق کی کہ ووٹرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس انتہائی متوقع انتخابات کے نتائج کا اعلان 4 جون 2024 کو کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سرینگر پارلیمانی نشست پر ایک نظر