سرینگر (جموں کشمیر) : سرینگر کے گنڈبل علاقے میں منگل کی صبح اُس وقت صف ماتم بچھ گئی جب دریائے جہلم میں ایک کشتی الٹ گئی اور اسکولی بچوں سمیت کشتی میں سوار درجن سے زائد افراد ڈوب گئے۔ سانحے میں چھ افراد غرقاب ہوئے۔ چھ کو بازیاب کر لیا گیا، جبکہ مزید افراد کی تلاش جاری ہے۔ مقامی باشندے سابق حکومتوں اور انتظامیہ کو اس سانحے کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، کیونکہ برسوں سے زیر تعمیر فُٹ برج تکمیل سے کوسوں دور ہے جس کی وجہ سے لوگ دریا پار کرنے کے لیے کشتی کا استعمال کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
مقامی باشندوں نے پل مکمل نہ کیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ بلال فرقانی نامی ایک مقامی باشندے نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’اس سانحہ کو ٹالا جا سکتا تھا اگر انتظامیہ نے وقت پر لوگوں کی گزارشات پر عمل کرکے پل کو تعمیر کیا ہوتا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پُل گنڈبل سے سونہ وار یا بٹہ وارہ پہنچنے کے لیے لوگ کشتی کے سہارے جہلم پار کرنے کے لئے مجبور ہیں، کیونکہ علاقے میں پل موجود نہیں اور کشتی کا استعمال کرنے سے ان کےاقریب چھ کلومیٹر کا سفر کم ہو جاتا ہے۔
ادھر، سیاسی جماعتوں نے بھی موجودہ انتظامیہ کو اس سانحہ پر مورد الزام ٹھہرایا۔ سابق وزراء اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے بھی سماجی رابطہ گاہوں پر سانحے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین کے ساتھ تعذیت کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے پل کی تعمیر میں تاخیر پر انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاہم حیران کن طور پر فاروق عبداللہ اس وقت سرینگر نشست سے رکن پارلیمان ہیں۔ وہیں سرینگر ضلع کے ترقیاتی کمشنر بلال محی الدین بٹ نے پل کی تعمیر میں تاخیر پر بات کرنے سے صاف انکار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بٹوارہ سری نگر میں دریائے جہلم میں مسافر کشتی الٹ گئی، چھ افراد ہلاک، مزید ہلاکتوں کا اندیشہ - boat capsizes in River Jhelum