سرینگر (جموں و کشمیر): متحدہ مجلس علمأ، جموں وکشمیر اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اشتراک مجلس کے اراکین کا ایک غیر معمولی اجلاس مفتی اعظم کی صدارت میں ان کے مرکزی دفتر سرینگر میں منعقد ہوا۔ میٹنگ میں حکومت ہند کی جانب سے وقف ترمیمی بل 2024 کے مضمرات اور امکانات اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو درپیش خدشات اور مختلف مسائل اور مصائب پر بھی بات چیت کی گئی۔
کشمیری معاشرے کی فلاح و بہبود اور وادی میں منشیات کے بے تحاشا پھیلاؤ اور اس سے ہونے والے نوجوان نسل کو نقصانات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ نئی نسل کی اسلامی تعلیمات سے دوری، میر واعظ کی ایک بار پھر خانہ نظر بندی اور دیگر سنگین معاملات و امورات پر تبادلہ خیال کے علاوہ اصلاح معاشرہ کی ہمہ جہت کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
اجلاس کی صدارت مفتی ناصر الاسلام فاروقی نے انجام دی جبکہ سرکردہ علمأ نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقعے پر جو جامع قرار داد متفقہ طور پر پاس کی گئیں ان میں کہا گیا کہ یہ اجلاس حکومت ہند کی جانب سے وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا کہ متحدہ مجلس علمأ، جموں وکشمیر اس بل کی پوری سختی کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور اسے مسترد کرتا ہے جس کو این ڈی اے حکومت قانونی شکل دے کر اسے نافذ کرنا چاہتی ہے۔
یہ اجلاس حکومت ہند پر واضح کرتا ہے کہ وقف کی تمام تر جائیداد، املاک اور پراپرٹی کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اور وقف کا تصور اسلامی نظام عقائد کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس میں حکومتی مداخلت وقف کے بنیادی تصور کومجروح کرتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی کوششیں ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔
اجلاس یہ بھی واضح کرتا ہے کہ وقف کی جائیدادیں، الٰہی قوانین کے تحت مسلم پرسنل لاءمیں شامل ہیں اس لیے حکومت کی جانب سے اس میں دخل اندازی اور مختلف ایکٹ اور ترامیم کے ذریعے کسی بھی قسم کی تبدیلی مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
اس حوالے سے متحدہ مجلس علما جموں وکشمیر نے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جو مفصل اور مدلل مکتوب ارسال کیا ہے اس میں اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلم مخالف بل قرار دیاگیا ہے اور یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس ضمن میں مجلس اپنا نقطہ نظر اور موقف جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے براہ راست ملاقات اور بات چیت کے ذریعے بھی واضح کرسکتی ہے۔ لہٰذا یہ اجلاس مرکزی حکومت اور جے پی سی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس حوالے سے مسلم کمیونٹی کو لاحق خدشات کو فوری طور پر دور کرے اوراس کی واحد صورت مذکورہ بل کو واپس لینے میں مضمر ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ علمأ کمیٹی امیر میر واعظ کی ماہ ربیع الاول کے متبرک اور تقدیر ساز مہینے میں ایک بار پھر خانہ نظر بندی کی مذمت کرتے ہوئے موصوف کی فوری رہائی پر زور دیتی ہے تاکہ وہ حسب معمول عوام کے تئیں اپنی منصبی ذمہ داریاں پوری کرسکیں۔
اجلاس میں جموں وکشمیر کے ائمہ مساجد خانقاہوں، امام باڑوں اور آستانوں کے خطیب اور واعظین سے اپیل کی گئی کہ وہ نماز جمعہ کے موقعے پر اپنے اپنے اجتماعات میں مذکورہ قرارداد کو عوام میں پیش کرکے اس کی تائید حاصل کریں۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ اجلاس میں جن علمأ نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر عبدالطیف کندی، شوکت حسین کنگ، آغا سید مجتبیٰ الموسوی، مفتی اعجاز الحسن بانڈے، پروفیسر محمد یاسین کرمانی، مولانا خورشید احمد (قانون گو)، مولوی عبدالطیف بخاری، سید محمد یوسف رضوی، غلام علی گلزار، محمد اسلم اندرابی اور مولانا ایم ایس رحمٰن شمس کے نام قابل ذکر ہیں۔