ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں: خصوصی حیثیت کی بحالی سے والمیکی سماج اور پناہ گزین کو نئی پہچان کھونے کا خدشہ

والمیکی سماج اور پناہ گزینوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد اور اس سے پہلے کے حالات پر اظہار خیال کیا۔

جموں میں والمیکی سماج اور پناہ گزین سے خاص بات چیت
جموں میں والمیکی سماج اور پناہ گزین سے خاص بات چیت (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 11, 2024, 12:57 PM IST

جموں: جموں و کشمیر میں خصوصی حیثیت کی بحالی پر جاری بحث نے مختلف برادریوں کے درمیان جذبات کو بھڑکا دیا ہے، خاص طور پر گورکھا، والمیکی اور مغربی پاکستانی پناہ گزینوں میں، جنہیں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد طویل عرصے کے بعد حقوق ملے۔ حالانکہ خصوصی حیثیت کے خاتمے نے انہیں نئے مواقع فراہم کیے، مگر انہیں صرف جزوی فوائد حاصل ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں شکر گزاری اور مایوسی ایک ساتھ نظر آتی ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے ان برادریوں کے رہنماؤں اور افراد سے بات چیت کی تاکہ ان کی جدوجہد اور دفعہ 370 کی وجہ سے ان کے مشکلات کی کہانیاں سامانے لائی جا سکیں۔

والمیکی سماج کی کارکن مینا گل کے لیے آرٹیکل 370 کے خاتمے نے انہیں اور ان کے خاندان کو طویل عرصے سے محروم رہنے والے حقوق فراہم کیے۔ مینا گل کا کہنا ہیں کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد ہمیں یہاں شہریت ملی، جو ہمارے آباؤ اجداد کو کبھی نہیں ملی۔" انہوں نے بتایا کہ ان کے آباء و اجداد کو 1957 میں پنجاب سے جموں لایا گیا تھا تاکہ وہ صفائی کا کام کریں۔ " 67 سالوں تک، ہمیں باہر والوں کی طرح سمجھا گیا، باوجود اس کے کہ ہم نے لازمی خدمات فراہم کیں۔" ان کی آواز میں فخر اور مایوسی کا ملا جلا تاثر تھا۔ اگرچہ اب والمیکیوں کو شہریوں کا درجہ حاصل ہے، مگر انہیں ڈر ہے کہ خصوصی حیثیت کی بحالی کا فیصلہ ان کی نئی پہچان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جس سے وہ ابھی آشنا ہوئے ہیں۔

والمیکی سماج کی کارکن مینا گل سے بات چیت (Etv Bharat)

اپنی برادری کی تاریخ پر غور کرتے ہوئے گل نے کہا کہ 2019 سے پہلے پی آر سی (مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ) کی عدم موجودگی میں والمیکی نوجوان جموں و کشمیر میں بنیادی ملازمتوں کے لیے درخواست تک نہیں دے سکتے تھے۔ "اگرچہ ہمیں ریاستی حکومت نے یہاں بلایا، مگر ہمیں کبھی بھی شہریوں کے حقوق نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ والمیکی برادری کے لیے پی آر سی کی عدم دستیابی انہیں ’باہر والے‘ کا درجہ دیتی تھی، جس کے باعث انہیں ملازمت، جائیداد اور سماجی فوائد تک محدود رسائی حاصل نہیں تھی۔

گل کی اپنی کہانی ان کی برادری کی جدوجہد کو نمایاں کرتی ہے۔ خاتمے سے پہلے، وہ روایتی کردار سے ہٹ کر کسی پیشے کو اپنانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ " آج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں، جو چند سال پہلے تک ناممکن تھا،" تاہم، وہ کہتی ہیں کہ وعدہ شدہ فوائد کا صرف ایک حصہ ہی حاصل ہوا ہے۔ " اگر میں اندازہ لگاؤں تو ہمیں تقریباً 20 فیصد مواقع ہی ملے ہیں جن کی ہمیں امید تھی،" انہوں نے مزید کہا۔ ان کے لیے والمیکی برادری کی مکمل بحالی ایک ترجیح ہے، ایک مقصد جسے وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت خصوصی حیثیت کی بحالی سے قبل مدنظر رکھے گی۔

والمیکی سماج کی کارکن ایکتا مٹو سے بات چیت (Etv Bharat)

والمیکی برادری کی ریاست کے صفائی اور فلاح و بہبود میں خدمات ذاتی قربانیوں کے ساتھ آئیں۔ "ہمارے خاندان آج بھی ان دو مرلہ زمین پر رہائش پذیر ہیں جو ہمیں اُس وقت الاٹ کی گئی تھی، اس میں کوئی توسیع نہیں ہوئی۔ ہم مزید زمین خرید نہیں سکتے تھے کیونکہ ہمیں مستقل رہائشی نہیں سمجھا جاتا تھا۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ بجائے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے، وہ ان کی برادری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو اہمیت دے۔



دوسری جانب، مغربی پاکستانی پناہ گزین ایسوسی ایشن کے صدر لبھا رام گاندھی کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ان کی برادری کو، جسے 1947 سے لے کر 5 اگست 2019 تک دوسرے درجے کی حیثیت دی گئی تھی، ووٹ دینے کا حق اور دیگر شہری فوائد حاصل کرنے کا موقع دیا۔ مغربی پاکستانی پناہ گزین جموں، کٹھوعہ اور راجوری اضلاع میں آباد ہوئے، مگر دہائیوں تک انہیں ’باہر والوں‘ کے طور پر دیکھا گیا، حتیٰ کہ انہیں بنیادی شہریت کے حقوق بھی نہیں دیے گئے۔

مغربی پاکستانی پناہ گزین ایسوسی ایشن کے صدر لبھا رام گاندھی (Etv Bharat)

گاندھی کے لیے، آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے ہیں، جس سے مغربی پاکستانی پناہ گزینوں کو جموں و کشمیر میں مساوی حقوق کا دعویٰ کرنے کا حق ملا ہے، اور انتظامیہ نے 1947 سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے مزید زمین کی الاٹمنٹ اور معاوضے کا وعدہ کیا ہے۔ "ہمارے لوگوں نے 70 سال سے زیادہ خاموشی سے مشکلات سہیں،" انہوں نے کہا۔ "اگرچہ ہم نے بہتری دیکھی ہے، مگر کچھ معاملات جیسے زمین کا مسئلہ ابھی بھی زیر التواء ہیں،" انہوں نے مزید کہا، اس امید کا اظہار کیا کہ انتظامیہ ان وعدوں کو پورا کرے گی بغیر کسی تقسیم کرنے والی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیے۔


مزید پڑھیں: عمر عبداللہ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف قرارداد کا اشارہ دیا

انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آرٹیکل 371 جیسی کوئی شق، جو دیگر ہندوستانی ریاستوں میں مقامی مفادات کی حفاظت کرتی ہے، خصوصی حیثیت کی واپسی سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ "غیر مقامی لوگوں کے لیے ملازمت اور زمین کے مواقع پر پابندیاں جموں و کشمیر کے لیے مفید ہو سکتی ہیں، بغیر اس پیش رفت کو واپس لیے جسے ہم نے حاصل کیا ہے،" گاندھی پرامید ہیں کہ حالیہ عدالتی مباحثے ان کی برادری کے حقوق میں کسی قسم کی پسماندگی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

والمیکی سماج سبھا کے صدر گورو بھٹی سے بات چیت (Etv Bharat)

2019 سے پہلے، یہ برادریاں کئی دہائیوں تک پسماندگی کا شکار تھیں اور انہیں بنیادی شہری حقوق تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ مغربی پاکستانی پناہ گزین، جو تقسیم کے وقت جموں ہجرت کر گئے تھے، انہیں رہائشی حیثیت سے محروم رکھا گیا، جس سے ان کے معاشی امکانات محدود ہو گئے۔ اسی طرح، والمیکی برادری ریاست کے لیے اہمیت رکھنے کے باوجود محنت کش کاموں تک محدود تھی اور ان کے پاس معاشرتی ترقی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ دونوں برادریاں اپنی زمین میں ہی ’باہر والوں‘ کے طور پر رہیں، جنہوں نے خطے کی محنت اور ثقافت میں حصہ ڈالا، مگر بدلے میں بہت کم پہچان حاصل کی۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات: والمیکی سماج کے لوگوں نے پہلی بار ووٹ ڈالا، کہا بی جے پی ہمارے لیے بھگوان

ان برادریوں کے جذبات جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں گہری تشویش کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے لیے ’ایک قانون سب پر لاگو ہو‘ کا وعدہ دیرینہ ناانصافیوں کا خاتمہ ہے۔ جب جموں و کشمیر کی اسمبلی آرٹیکل 370 کے مستقبل پر بحث کرتی ہے، تو ان کی آوازیں ایک اہم نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں — ایک ایسا نقطہ نظر جو خطے کے ایک جامع، جمہوری مستقبل کی امید کو بیان کرتا ہے۔

لمبا رام گاندھی کہتے ہیں کہ ہم خصوصی سلوک نہیں مانگتے، بس منصفانہ سلوک چاہتے ہیں۔" جب جموں و کشمیر مستقبل کی طرف دیکھتا ہے، تو یہ برادریاں بڑی توجہ سے دیکھ رہی ہیں، امید کرتی ہیں کہ آگے بڑھنے والا راستہ ماضی کی قربانیوں کا احترام کرے گا اور وہ ترقی جو انہوں نے بالآخر حاصل کی ہے، برقرار رکھی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر اسمبلی میں قرارداد پر ہاتھا پائی، اراکین نے لگائے اللہ اکبر اور جے شری رام کے نعرے

جموں: جموں و کشمیر میں خصوصی حیثیت کی بحالی پر جاری بحث نے مختلف برادریوں کے درمیان جذبات کو بھڑکا دیا ہے، خاص طور پر گورکھا، والمیکی اور مغربی پاکستانی پناہ گزینوں میں، جنہیں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد طویل عرصے کے بعد حقوق ملے۔ حالانکہ خصوصی حیثیت کے خاتمے نے انہیں نئے مواقع فراہم کیے، مگر انہیں صرف جزوی فوائد حاصل ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں شکر گزاری اور مایوسی ایک ساتھ نظر آتی ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے ان برادریوں کے رہنماؤں اور افراد سے بات چیت کی تاکہ ان کی جدوجہد اور دفعہ 370 کی وجہ سے ان کے مشکلات کی کہانیاں سامانے لائی جا سکیں۔

والمیکی سماج کی کارکن مینا گل کے لیے آرٹیکل 370 کے خاتمے نے انہیں اور ان کے خاندان کو طویل عرصے سے محروم رہنے والے حقوق فراہم کیے۔ مینا گل کا کہنا ہیں کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد ہمیں یہاں شہریت ملی، جو ہمارے آباؤ اجداد کو کبھی نہیں ملی۔" انہوں نے بتایا کہ ان کے آباء و اجداد کو 1957 میں پنجاب سے جموں لایا گیا تھا تاکہ وہ صفائی کا کام کریں۔ " 67 سالوں تک، ہمیں باہر والوں کی طرح سمجھا گیا، باوجود اس کے کہ ہم نے لازمی خدمات فراہم کیں۔" ان کی آواز میں فخر اور مایوسی کا ملا جلا تاثر تھا۔ اگرچہ اب والمیکیوں کو شہریوں کا درجہ حاصل ہے، مگر انہیں ڈر ہے کہ خصوصی حیثیت کی بحالی کا فیصلہ ان کی نئی پہچان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جس سے وہ ابھی آشنا ہوئے ہیں۔

والمیکی سماج کی کارکن مینا گل سے بات چیت (Etv Bharat)

اپنی برادری کی تاریخ پر غور کرتے ہوئے گل نے کہا کہ 2019 سے پہلے پی آر سی (مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ) کی عدم موجودگی میں والمیکی نوجوان جموں و کشمیر میں بنیادی ملازمتوں کے لیے درخواست تک نہیں دے سکتے تھے۔ "اگرچہ ہمیں ریاستی حکومت نے یہاں بلایا، مگر ہمیں کبھی بھی شہریوں کے حقوق نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ والمیکی برادری کے لیے پی آر سی کی عدم دستیابی انہیں ’باہر والے‘ کا درجہ دیتی تھی، جس کے باعث انہیں ملازمت، جائیداد اور سماجی فوائد تک محدود رسائی حاصل نہیں تھی۔

گل کی اپنی کہانی ان کی برادری کی جدوجہد کو نمایاں کرتی ہے۔ خاتمے سے پہلے، وہ روایتی کردار سے ہٹ کر کسی پیشے کو اپنانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ " آج میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہوں، جو چند سال پہلے تک ناممکن تھا،" تاہم، وہ کہتی ہیں کہ وعدہ شدہ فوائد کا صرف ایک حصہ ہی حاصل ہوا ہے۔ " اگر میں اندازہ لگاؤں تو ہمیں تقریباً 20 فیصد مواقع ہی ملے ہیں جن کی ہمیں امید تھی،" انہوں نے مزید کہا۔ ان کے لیے والمیکی برادری کی مکمل بحالی ایک ترجیح ہے، ایک مقصد جسے وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت خصوصی حیثیت کی بحالی سے قبل مدنظر رکھے گی۔

والمیکی سماج کی کارکن ایکتا مٹو سے بات چیت (Etv Bharat)

والمیکی برادری کی ریاست کے صفائی اور فلاح و بہبود میں خدمات ذاتی قربانیوں کے ساتھ آئیں۔ "ہمارے خاندان آج بھی ان دو مرلہ زمین پر رہائش پذیر ہیں جو ہمیں اُس وقت الاٹ کی گئی تھی، اس میں کوئی توسیع نہیں ہوئی۔ ہم مزید زمین خرید نہیں سکتے تھے کیونکہ ہمیں مستقل رہائشی نہیں سمجھا جاتا تھا۔" انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی کہ بجائے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے، وہ ان کی برادری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو اہمیت دے۔



دوسری جانب، مغربی پاکستانی پناہ گزین ایسوسی ایشن کے صدر لبھا رام گاندھی کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ان کی برادری کو، جسے 1947 سے لے کر 5 اگست 2019 تک دوسرے درجے کی حیثیت دی گئی تھی، ووٹ دینے کا حق اور دیگر شہری فوائد حاصل کرنے کا موقع دیا۔ مغربی پاکستانی پناہ گزین جموں، کٹھوعہ اور راجوری اضلاع میں آباد ہوئے، مگر دہائیوں تک انہیں ’باہر والوں‘ کے طور پر دیکھا گیا، حتیٰ کہ انہیں بنیادی شہریت کے حقوق بھی نہیں دیے گئے۔

مغربی پاکستانی پناہ گزین ایسوسی ایشن کے صدر لبھا رام گاندھی (Etv Bharat)

گاندھی کے لیے، آرٹیکل 370 کے خاتمے نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کیے ہیں، جس سے مغربی پاکستانی پناہ گزینوں کو جموں و کشمیر میں مساوی حقوق کا دعویٰ کرنے کا حق ملا ہے، اور انتظامیہ نے 1947 سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے مزید زمین کی الاٹمنٹ اور معاوضے کا وعدہ کیا ہے۔ "ہمارے لوگوں نے 70 سال سے زیادہ خاموشی سے مشکلات سہیں،" انہوں نے کہا۔ "اگرچہ ہم نے بہتری دیکھی ہے، مگر کچھ معاملات جیسے زمین کا مسئلہ ابھی بھی زیر التواء ہیں،" انہوں نے مزید کہا، اس امید کا اظہار کیا کہ انتظامیہ ان وعدوں کو پورا کرے گی بغیر کسی تقسیم کرنے والی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیے۔


مزید پڑھیں: عمر عبداللہ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف قرارداد کا اشارہ دیا

انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آرٹیکل 371 جیسی کوئی شق، جو دیگر ہندوستانی ریاستوں میں مقامی مفادات کی حفاظت کرتی ہے، خصوصی حیثیت کی واپسی سے زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ "غیر مقامی لوگوں کے لیے ملازمت اور زمین کے مواقع پر پابندیاں جموں و کشمیر کے لیے مفید ہو سکتی ہیں، بغیر اس پیش رفت کو واپس لیے جسے ہم نے حاصل کیا ہے،" گاندھی پرامید ہیں کہ حالیہ عدالتی مباحثے ان کی برادری کے حقوق میں کسی قسم کی پسماندگی کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

والمیکی سماج سبھا کے صدر گورو بھٹی سے بات چیت (Etv Bharat)

2019 سے پہلے، یہ برادریاں کئی دہائیوں تک پسماندگی کا شکار تھیں اور انہیں بنیادی شہری حقوق تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ مغربی پاکستانی پناہ گزین، جو تقسیم کے وقت جموں ہجرت کر گئے تھے، انہیں رہائشی حیثیت سے محروم رکھا گیا، جس سے ان کے معاشی امکانات محدود ہو گئے۔ اسی طرح، والمیکی برادری ریاست کے لیے اہمیت رکھنے کے باوجود محنت کش کاموں تک محدود تھی اور ان کے پاس معاشرتی ترقی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ دونوں برادریاں اپنی زمین میں ہی ’باہر والوں‘ کے طور پر رہیں، جنہوں نے خطے کی محنت اور ثقافت میں حصہ ڈالا، مگر بدلے میں بہت کم پہچان حاصل کی۔

مزید پڑھیں: جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات: والمیکی سماج کے لوگوں نے پہلی بار ووٹ ڈالا، کہا بی جے پی ہمارے لیے بھگوان

ان برادریوں کے جذبات جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں گہری تشویش کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے لیے ’ایک قانون سب پر لاگو ہو‘ کا وعدہ دیرینہ ناانصافیوں کا خاتمہ ہے۔ جب جموں و کشمیر کی اسمبلی آرٹیکل 370 کے مستقبل پر بحث کرتی ہے، تو ان کی آوازیں ایک اہم نقطہ نظر فراہم کرتی ہیں — ایک ایسا نقطہ نظر جو خطے کے ایک جامع، جمہوری مستقبل کی امید کو بیان کرتا ہے۔

لمبا رام گاندھی کہتے ہیں کہ ہم خصوصی سلوک نہیں مانگتے، بس منصفانہ سلوک چاہتے ہیں۔" جب جموں و کشمیر مستقبل کی طرف دیکھتا ہے، تو یہ برادریاں بڑی توجہ سے دیکھ رہی ہیں، امید کرتی ہیں کہ آگے بڑھنے والا راستہ ماضی کی قربانیوں کا احترام کرے گا اور وہ ترقی جو انہوں نے بالآخر حاصل کی ہے، برقرار رکھی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر اسمبلی میں قرارداد پر ہاتھا پائی، اراکین نے لگائے اللہ اکبر اور جے شری رام کے نعرے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.