ETV Bharat / jammu-and-kashmir

آزاد کو چھوڑ کر کانگریس واپس لوٹ سکتے ہیں تین لیڈران - DPAP Leaders to Rejoin Congress - DPAP LEADERS TO REJOIN CONGRESS

قریب نصف صدی تک کانگریس کے ساتھ وابستہ رہے غلام نبی آزاد کی پارٹی کا شیرازہ دھیرے دھیرے بکھرنے لگا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں کراری شکست کے بعد پارٹی سے وابستہ لیڈران آزاد کا ہاتھ چھوڑ رہے ہیں۔

ا
غلام نبی آزاد (فائل فوٹو)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 4, 2024, 6:04 PM IST

جموں (جموں کشمیر) : کانگریس پارٹی سے علیحدہ ہوکر نئی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) تشکیل دینے والی جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کی پارٹی جموں کشمیر کی سیاسی بساط پر کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہی۔ معرض وجود میں آنے کے بعد ہی پارٹی میں شامل ہوئے کئی لیڈران آزاد کو چھوڑ کر واپس اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل ہوئے۔ ادھر، آزاد کے قدیمی ساتھی اور وفادار اور سابق وزیر تاج محی الدین اور عبدالمجید وانی دوبارہ کانگریس میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان لیڈران کے ساتھ ساتھ سابق ایم ایل اے گلزار وانی بھی آزاد کا دامن چھوڑ سکتے ہیں۔

غلام نبی آزاد نے ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی (DPAP) لانچ کرنے کے بعد لوگ سبھا انتخابات میں از خود شرکت نہیں کی بلکہ پارٹی سے وابستہ بیشتر غیر معروف اور نئے شامل ہوئے لیڈران کو ٹکٹ دی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ غلام نبی آزاد کو اپنی شکست کا اندازہ لگ چکا تھا اسی وجہ سے انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں بذات خود شرک نہیں کی۔ لوک سبھا انتخابات میں آزاد کے امیدواروں میں کسی نے بھی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مجموعی طور پر تین فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے۔ آزاد کی پارٹی کے بیشتر امیدار اپنی ضمانت کی رقم بھی نہ بچا سکے۔

سابق وزیر اعلیٰ کی پارٹی ان انتخابات میں زیادہ کچھ نہیں کر سکی حتی کہ غلام نبی آزاد کے آبائی علاقہ اور پارٹی کے گڑھ تصور کیے جانے والے ضلع ڈوڈہ میں بھی اس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کے جموں کشمیر میں آزاد کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یاد رہے کہ سابق مرکزی وزیر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نے ستمبر 2022 میں 49برسوں کے طویل عرصہ کے بعد کانگریس کو خیرباد کہا اور اپنی پارٹی تشکیل دی۔ اس وقت کانگریس کے کئی لیڈر پارٹی چھوڑ کر آزاد کی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ جن میں سابق نائب وزیر اعلیٰ تاراچند اور بلوان سنگھ جیسے رہنما آزاد کی پارٹی میں شامل ہو گئے تاہم جلد ہی وہ کانگریس میں واپس چلے گئے۔ آزاد کی پارٹی جس تیزی سے معرض وجود میں آئی اور مقبول ہوئی اسی تیزی کے ساتھ اس کی پوری ہوا بھی نکل گئی۔ آزاد کی پارٹی لوک سبھا انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کے کئی علاقوں میں مسلسل سرگرم رہی اور کئی ریلیاں بھی برآمد کیں، تاہم ووٹروں کو اپنی جانب لبھانے میں ناکام رہے۔

حال ہی میں آزاد کی غیر موجودگی میں جموں میں غلام نبی آزاد کی رہائش گاہ پر پارٹی کے نائب صدر جی ایم سروری کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس میٹنگ میں انتخابات میں پارٹی کی شکست پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تمام رہنما ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئے۔ پارٹی میں موجود ذرائع کے مطابق میٹنگ میں جموں کے رہنما پارٹی ترجمان کی طرف سے جیل میں بند انجینئر رشید کو مبارکباد دینے پر کافی ناراض نظر آئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’’نظامی نے نہ صرف علیحدگی پسند انجینئر رشید کی حمایت کی بلکہ رشید کے گھر بھی انہیں مبارکباد دینے گئے۔‘‘ جموں کے لیڈروں نے الزام عائد کیا کہ پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں جموں سے کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ آزاد کی پارٹی کشمیر تک ہی محدود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد امیدوار نے آزاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے - Lok Sabha Election Result

جموں (جموں کشمیر) : کانگریس پارٹی سے علیحدہ ہوکر نئی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) تشکیل دینے والی جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کی پارٹی جموں کشمیر کی سیاسی بساط پر کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے سے قاصر رہی۔ معرض وجود میں آنے کے بعد ہی پارٹی میں شامل ہوئے کئی لیڈران آزاد کو چھوڑ کر واپس اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل ہوئے۔ ادھر، آزاد کے قدیمی ساتھی اور وفادار اور سابق وزیر تاج محی الدین اور عبدالمجید وانی دوبارہ کانگریس میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان لیڈران کے ساتھ ساتھ سابق ایم ایل اے گلزار وانی بھی آزاد کا دامن چھوڑ سکتے ہیں۔

غلام نبی آزاد نے ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی (DPAP) لانچ کرنے کے بعد لوگ سبھا انتخابات میں از خود شرکت نہیں کی بلکہ پارٹی سے وابستہ بیشتر غیر معروف اور نئے شامل ہوئے لیڈران کو ٹکٹ دی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ غلام نبی آزاد کو اپنی شکست کا اندازہ لگ چکا تھا اسی وجہ سے انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں بذات خود شرک نہیں کی۔ لوک سبھا انتخابات میں آزاد کے امیدواروں میں کسی نے بھی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مجموعی طور پر تین فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے۔ آزاد کی پارٹی کے بیشتر امیدار اپنی ضمانت کی رقم بھی نہ بچا سکے۔

سابق وزیر اعلیٰ کی پارٹی ان انتخابات میں زیادہ کچھ نہیں کر سکی حتی کہ غلام نبی آزاد کے آبائی علاقہ اور پارٹی کے گڑھ تصور کیے جانے والے ضلع ڈوڈہ میں بھی اس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کے جموں کشمیر میں آزاد کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یاد رہے کہ سابق مرکزی وزیر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نے ستمبر 2022 میں 49برسوں کے طویل عرصہ کے بعد کانگریس کو خیرباد کہا اور اپنی پارٹی تشکیل دی۔ اس وقت کانگریس کے کئی لیڈر پارٹی چھوڑ کر آزاد کی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ جن میں سابق نائب وزیر اعلیٰ تاراچند اور بلوان سنگھ جیسے رہنما آزاد کی پارٹی میں شامل ہو گئے تاہم جلد ہی وہ کانگریس میں واپس چلے گئے۔ آزاد کی پارٹی جس تیزی سے معرض وجود میں آئی اور مقبول ہوئی اسی تیزی کے ساتھ اس کی پوری ہوا بھی نکل گئی۔ آزاد کی پارٹی لوک سبھا انتخابات سے پہلے جموں و کشمیر کے کئی علاقوں میں مسلسل سرگرم رہی اور کئی ریلیاں بھی برآمد کیں، تاہم ووٹروں کو اپنی جانب لبھانے میں ناکام رہے۔

حال ہی میں آزاد کی غیر موجودگی میں جموں میں غلام نبی آزاد کی رہائش گاہ پر پارٹی کے نائب صدر جی ایم سروری کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس میٹنگ میں انتخابات میں پارٹی کی شکست پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تمام رہنما ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئے۔ پارٹی میں موجود ذرائع کے مطابق میٹنگ میں جموں کے رہنما پارٹی ترجمان کی طرف سے جیل میں بند انجینئر رشید کو مبارکباد دینے پر کافی ناراض نظر آئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’’نظامی نے نہ صرف علیحدگی پسند انجینئر رشید کی حمایت کی بلکہ رشید کے گھر بھی انہیں مبارکباد دینے گئے۔‘‘ جموں کے لیڈروں نے الزام عائد کیا کہ پارٹی نے لوک سبھا انتخابات میں جموں سے کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ آزاد کی پارٹی کشمیر تک ہی محدود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد امیدوار نے آزاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے - Lok Sabha Election Result

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.