سرینگر: پیلپلز لانفرنس کے چئیرمیں سجاد لون نے کہاکہ یوم شہدا کے موقعے پر انہیں کیوں نظربند کیا گیا۔ میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ لوگوں کو شہداء کے قبرستان میں جانے سے روکنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔
سجاد پون نے اپنے پوسٹ میں مزید لکھا ہے کہ شہداء کشمیر کے لوگوں کے لیے ہیرو ہیں۔ وہ کشمیریوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں۔ انہیں کیوں نظر انداز کیا جائے گا؟ ایک غیر مقامی حکومت کو اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہے؟
غور طلب ہے کہ سجاد لون 2000 کی دہائی کے اوائل میں حریت سے وابستہ تھے۔ وہ اپنے والد کے قتل کے بعد 2004 میں پیپلز کانفرنس کے چیئرمین بنے تھے۔ اس سے قبل جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی لوگوں کو شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکنے پر پولیس کی مذمت کی۔
عمر عبداللہ نے بھی 13 جولائی کو سماجی نیٹ ورکنگ سائٹ ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں لکھا کہ عام لوگوں کو شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکنے کی مذمت کرتاہوں۔
یہ بھی پڑھیں: 13جولائی کی تقریب پر قدغن افسوسناک، میرواعظ کشمیر -
واضح رہے کہ 13 جولائی 1931 کو سرینگر میں سینٹرل جیل کے باہر احتجاج کے دوران ریاستی فورسز کی کارروائی میں کم از کم 22 افراد مارے گئے۔ یہ احتجاج عبدالقدیر خان کے مقدمے کی سماعت کے خلاف شروع ہوا تھا۔ عبدالقدیر خان سوات سے تعلق رکھتے تھے جو اب پاکستان میں ہے۔