ETV Bharat / jammu-and-kashmir

پیپر لیک اسکینڈل سے کانگریس میں واپسی تک: پیرزادہ محمد سعید کا سیاسی سفر - Peerzada Mohammad Sayed

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 4, 2024, 1:00 PM IST

کانگریس کے سینئر رہنما پیر زادہ محمد سعید 27 اگست 1953 کو اننت ناگ قصبہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور تکیہ دمہال نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔ پیرزادہ ان 14 امیدواروں میں شامل ہیں جو اننت ناگ کی نو تشکیل شدہ اننت ناگ 44 حلقہ میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

ا
پیرزادہ محمد سعید، سینئر کانگریس لیڈر (ای ٹی وی بھارت)

اننت ناگ (جموں کشمیر) : سینئر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر پیرزادہ محمد سعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1971 میں کیا اور 1975 میں انہیں پردیش یوتھ کانگریس کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ وہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے چچا پیر حُسام الدین نے 1965 میں کوکرناگ حلقہ کے ایم ایل اے اور ایم ایل سی کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے والد، پیرزادہ محمد یوسف ایک مذہبی شخصیت تھی اور ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھی جن میں سے کسی کا بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔

سیاسی سفر کا آغاز

سال 1977 میں سنجے گاندھی نے سعید کو جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا۔ 1982 تک انہیں پردیش کانگریس کمیٹی اور یوتھ کانگریس کمیٹی دونوں کے جنرل سیکریٹری کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ سعید نے اپنا پہلا اسمبلی الیکشن 1986 میں کوکرناگ حلقہ سے لڑا تھا، اور 32 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جیت کے بعد انہیں تعلیم اور سماجی بہبود کا وزیر مقرر کیا گیا۔ تاہم گورنر جگموہن نے ان کی تقرری کے ایک ماہ بعد اسمبلی کو 1990 میں تحلیل کر دیا تھا۔

سنہ 1996 میں اسمبلی الیکشن ہارنے کے باوجود سعید نے 2002 میں زبردست واپسی کی، کوکرناگ سیٹ پر نمایاں فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں دیہی ترقی اور تعلیم کا وزیر مقرر کیا گیا۔ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے ایک بار پھر بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی اور انہیں تعلیم، حج اور اوقاف کا وزیر مقرر کیا گیا۔

اپنے وسیع سیاسی کیریئر کے دوران سعید مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں دیہی ترقی و پنچایتی راج، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، شہری ترقی، مواصلات اور آئی ٹی، پبلک انٹرپرائزز، حج و اوقاف، تعلیم، فلوریکلچر، یوتھ سروسز اینڈ اسپورٹس میں اپنا کلیدی کردار نبھایا۔

ا
سنہ 2009 میں پیرزادہ سعید پیپر لیک اسکینڈل کی وجہ سے سرخیوں میں رہے (فائل فوٹو)

اپنے اقتدار میں سعید نے زمینی سطح پر متعدد سرکاری اسکیموں کو متعارف کرایا، جیسے کہ رہبر تعلیم (آر ٹی) سرو شکشھا ابھیان (ایس ایس اے) اور اسکولوں میں مڈ ڈے میلز شامل ہیں۔ انہوں نے دیہی ترقی کے وزیر کے طور پر دیہات میں ترقی کو یقینی بنانے کے لیے پنچایت کی عمارتوں اور تعلیمی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں متعدد پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکولوں اور مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں میں اپ گریڈ کیا گیا، جن میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے دور دراز علاقے شامل ہیں۔

پیپر لیک گھوٹالہ

سنہ 2009 میں پیرزادہ محمد سعید کئی ہفتوں تک لگاتار سرخیوں میں رہے جب دسویں جماعت کے امتحان میں ان کے سوتیلے بیٹے پر جعلسازی کا الزام عائد کیا گیا تھا، اس دوران جوابی پرچے منظر عام پر آگئے تھے، جوابی پرچے دو مختلف ہینڈ رائٹنگز میں لکھے ہوئے پائے گئے۔ بعد میں کرائم برانچ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ امیدوار کے جوابی پرچوں میں جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے چند افسران کی مدد سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، پیر زیادہ محمد سعید اس وقت وزیر تعلیم تھے جس پر انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اس غیر قانونی کام میں پیرزادہ نے اپنے بیٹے کی مدد کی ہے، تاہم پیر زادہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی، جس کے بعد سنہ 2012 میں پیرزادہ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تاہم کانگریس کے ہائی کمان نے اسے قبول نہیں کیا، اور پیرزادہ سے وزیر تعلیم کا قلمدان واپس لیا گیا تاہم اسے کابینہ میں وزیر کے طور پر مستقل رکھا گیا، اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز تھے۔

جب پیرزادہ الیکشن ہار گئے

پیر زادہ محمد سعید کا پانسا اس وقت پلٹ گیا جب 2014 کے اسمبلی انتخابات میں وہ ہار گئے اور پی ڈی پی کے عبدالرحیم راتھر نے تقریباً 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے اس نشست پر کامیابی حاصل کی۔

ا
محکمہ فشریز کے ملازم کو دوران ڈیوٹی تھپڑ رسید کرنے کی وجہ سے بھی پیرزادہ سڑکیوں میں رہے (فائل فوٹو)

پیرزادہ کی کانگریس میں گھر واپسی

جنوری سنہ 2022 میں انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا اور غلام نبی آزاد کی پارٹی جوائن کی، تاہم لوک سبھا انتخابات میں ڈی پی اے پی کی خراب کارکردگی کو دیکھ کر پیرزادہ نے پھر سے کانگریس کا دامن تھام لیا۔

پیر زادہ محمد سعید اننت ناگ حلقہ سے کانگریس کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، وہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان سیٹ شیئرنگ پر انتخابات لڑ رہے ہیں اس حلقہ میں ووٹروں کی کل تعداد 65 ہزار ہے، اس نشست پر کانگریس کے پیرزادہ محمد سعید، پی ڈی پی کے محبوب بیگ، اپنی پارٹی کے ہلال احمد شاہ، اور آزاد امیدوار پیر منصور حسین کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیر زادہ محمد سعید کو اپنے سابق حلقہ کوکرناگ میں کافی عبور رہا ہے تاہم کانسٹیونسی میں ردو بدل ہونے سے پیر زادہ کو ایک نئے حلقہ میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے زبردست چیلینج کا سامنا ہے۔ یہاں پر ان کے سب سے بڑے حریف پی ڈی پی کے ڈاکٹر محبوب بیگ ہیں جو اسی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور بیگ نے اس حلقہ سے کئی بار انتخابات جیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنوبی کشمیر میں آزاد امیدوار کیا پڑیں گے طاقتور سیاست دانوں پر بھاری ؟ - JK Assembly Elections

کیا قیدی انجینئر رشید کی پارٹی اسمبلی انتخابات میں بھی حیرت انگیز کامیابی حاصل کرے گی؟ - Er Rashid Impact on Polls

باپ کا پرانا میدان، بیٹے کا نیا خواب: ڈاؤن ٹاؤن کے ساگر میں کس کی ہوگی جیت؟ - NC Father Son Duo Vs PDP

اننت ناگ (جموں کشمیر) : سینئر کانگریس لیڈر اور سابق وزیر پیرزادہ محمد سعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1971 میں کیا اور 1975 میں انہیں پردیش یوتھ کانگریس کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ وہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے چچا پیر حُسام الدین نے 1965 میں کوکرناگ حلقہ کے ایم ایل اے اور ایم ایل سی کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے والد، پیرزادہ محمد یوسف ایک مذہبی شخصیت تھی اور ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون تھی جن میں سے کسی کا بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔

سیاسی سفر کا آغاز

سال 1977 میں سنجے گاندھی نے سعید کو جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کا صدر مقرر کیا۔ 1982 تک انہیں پردیش کانگریس کمیٹی اور یوتھ کانگریس کمیٹی دونوں کے جنرل سیکریٹری کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ سعید نے اپنا پہلا اسمبلی الیکشن 1986 میں کوکرناگ حلقہ سے لڑا تھا، اور 32 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس جیت کے بعد انہیں تعلیم اور سماجی بہبود کا وزیر مقرر کیا گیا۔ تاہم گورنر جگموہن نے ان کی تقرری کے ایک ماہ بعد اسمبلی کو 1990 میں تحلیل کر دیا تھا۔

سنہ 1996 میں اسمبلی الیکشن ہارنے کے باوجود سعید نے 2002 میں زبردست واپسی کی، کوکرناگ سیٹ پر نمایاں فرق سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں دیہی ترقی اور تعلیم کا وزیر مقرر کیا گیا۔ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں انہوں نے ایک بار پھر بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی اور انہیں تعلیم، حج اور اوقاف کا وزیر مقرر کیا گیا۔

اپنے وسیع سیاسی کیریئر کے دوران سعید مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں دیہی ترقی و پنچایتی راج، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، شہری ترقی، مواصلات اور آئی ٹی، پبلک انٹرپرائزز، حج و اوقاف، تعلیم، فلوریکلچر، یوتھ سروسز اینڈ اسپورٹس میں اپنا کلیدی کردار نبھایا۔

ا
سنہ 2009 میں پیرزادہ سعید پیپر لیک اسکینڈل کی وجہ سے سرخیوں میں رہے (فائل فوٹو)

اپنے اقتدار میں سعید نے زمینی سطح پر متعدد سرکاری اسکیموں کو متعارف کرایا، جیسے کہ رہبر تعلیم (آر ٹی) سرو شکشھا ابھیان (ایس ایس اے) اور اسکولوں میں مڈ ڈے میلز شامل ہیں۔ انہوں نے دیہی ترقی کے وزیر کے طور پر دیہات میں ترقی کو یقینی بنانے کے لیے پنچایت کی عمارتوں اور تعلیمی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت میں متعدد پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکولوں اور مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں میں اپ گریڈ کیا گیا، جن میں خاص طور پر جموں و کشمیر کے دور دراز علاقے شامل ہیں۔

پیپر لیک گھوٹالہ

سنہ 2009 میں پیرزادہ محمد سعید کئی ہفتوں تک لگاتار سرخیوں میں رہے جب دسویں جماعت کے امتحان میں ان کے سوتیلے بیٹے پر جعلسازی کا الزام عائد کیا گیا تھا، اس دوران جوابی پرچے منظر عام پر آگئے تھے، جوابی پرچے دو مختلف ہینڈ رائٹنگز میں لکھے ہوئے پائے گئے۔ بعد میں کرائم برانچ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ امیدوار کے جوابی پرچوں میں جموں کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کے چند افسران کی مدد سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے، پیر زیادہ محمد سعید اس وقت وزیر تعلیم تھے جس پر انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اس غیر قانونی کام میں پیرزادہ نے اپنے بیٹے کی مدد کی ہے، تاہم پیر زادہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی، جس کے بعد سنہ 2012 میں پیرزادہ نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تاہم کانگریس کے ہائی کمان نے اسے قبول نہیں کیا، اور پیرزادہ سے وزیر تعلیم کا قلمدان واپس لیا گیا تاہم اسے کابینہ میں وزیر کے طور پر مستقل رکھا گیا، اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز تھے۔

جب پیرزادہ الیکشن ہار گئے

پیر زادہ محمد سعید کا پانسا اس وقت پلٹ گیا جب 2014 کے اسمبلی انتخابات میں وہ ہار گئے اور پی ڈی پی کے عبدالرحیم راتھر نے تقریباً 10 ہزار ووٹوں کے فرق سے اس نشست پر کامیابی حاصل کی۔

ا
محکمہ فشریز کے ملازم کو دوران ڈیوٹی تھپڑ رسید کرنے کی وجہ سے بھی پیرزادہ سڑکیوں میں رہے (فائل فوٹو)

پیرزادہ کی کانگریس میں گھر واپسی

جنوری سنہ 2022 میں انہوں نے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا اور غلام نبی آزاد کی پارٹی جوائن کی، تاہم لوک سبھا انتخابات میں ڈی پی اے پی کی خراب کارکردگی کو دیکھ کر پیرزادہ نے پھر سے کانگریس کا دامن تھام لیا۔

پیر زادہ محمد سعید اننت ناگ حلقہ سے کانگریس کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، وہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان سیٹ شیئرنگ پر انتخابات لڑ رہے ہیں اس حلقہ میں ووٹروں کی کل تعداد 65 ہزار ہے، اس نشست پر کانگریس کے پیرزادہ محمد سعید، پی ڈی پی کے محبوب بیگ، اپنی پارٹی کے ہلال احمد شاہ، اور آزاد امیدوار پیر منصور حسین کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیر زادہ محمد سعید کو اپنے سابق حلقہ کوکرناگ میں کافی عبور رہا ہے تاہم کانسٹیونسی میں ردو بدل ہونے سے پیر زادہ کو ایک نئے حلقہ میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے زبردست چیلینج کا سامنا ہے۔ یہاں پر ان کے سب سے بڑے حریف پی ڈی پی کے ڈاکٹر محبوب بیگ ہیں جو اسی حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور بیگ نے اس حلقہ سے کئی بار انتخابات جیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنوبی کشمیر میں آزاد امیدوار کیا پڑیں گے طاقتور سیاست دانوں پر بھاری ؟ - JK Assembly Elections

کیا قیدی انجینئر رشید کی پارٹی اسمبلی انتخابات میں بھی حیرت انگیز کامیابی حاصل کرے گی؟ - Er Rashid Impact on Polls

باپ کا پرانا میدان، بیٹے کا نیا خواب: ڈاؤن ٹاؤن کے ساگر میں کس کی ہوگی جیت؟ - NC Father Son Duo Vs PDP

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.