ETV Bharat / jammu-and-kashmir

عمر، محبوبہ کی انتخابی مہم میں جماعت اسلامی مرکزی موضوع، پارٹی منشور سرد خانے میں - Omar Mehbooba and Jamaat

جماعت اسلامی کی انتخابات میں شمولیت پر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی آمنے سامنے، پارٹی منشور کے بجائے سابق وزراء اعلیٰ جماعت اسلامی کو انتخابی ریلیوں کے دوران اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔

Omar Abdullah Mehbooba Mufti bring banned Jammat e Islami into electoral centre stage forget thier party manifestos
عمر عبداللہ (دائیں)، اور محبوبہ مفتی (فائل فوٹوز)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 30, 2024, 6:24 PM IST

Updated : Aug 30, 2024, 7:59 PM IST

سرینگر: جموں کشمیر میں اگلے ماہ سے منعقدہ ہو رہے اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی کی شمولیت پر دو سابق وزرائے اعلیٰ میں لفظی جنگ، شروع ہو گئی ہے۔ دونوں سابق وزراء اعلیٰ تشہیری مہم میں اپنی پارٹی منشور کے بجائے جماعت اسلامی کو انتخابی مسئلہ بنا کر ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو پہلگام میں کہا کہ جماعت اسلامی کے لیے وہ انتخابات جو گزشتہ 30 سال سے ’حرام‘ تھے، اب ’حلال‘ ہو گئے ہیں۔

عمر عبداللہ نے انتخابی مہم کے دوران کہا: ’’پچھلے 30 برسوں سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ انتخابات حرام ہیں، مگر اب یہ حلال ہو گئے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ جماعت نے اچانک اپنا 30 سالہ موقف بدل لیا ہے، جو کہ اچھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ ان پر عائد پابندی ختم ہو جائے گی اور وہ اپنے نام اور نشان پر انتخاب لڑ سکیں گے۔‘‘

سیاسی حریف کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک ایسے لیڈر کی طرف سے یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے جس کی سیاسی تاریخ خود ’حرام، حلال‘ انتخابات پر مبنی ہے۔ محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے حیرت ہے کہ نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ حقیقت میں، حلال، حرام انتخابات کا آغاز جموں و کشمیر میں این سی نے ہی کیا۔‘‘

دونوں سابق وزرائے اعلیٰ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کا حصہ تھے، جس کا قیام 4 اگست 2019 کو دفعہ 370کے دفاع کے لیے عمل میں آیا۔ تاہم دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی کے بعد پی اے جی ڈی سے وابستہ اکائیوں نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا عہد کیا۔ تاہم، پارلیمانی انتخابات کے اعلان کے بعد پی اے جی ڈی کا شیرازہ بکھر گیا پی اے جی ڈی اور سے وابستہ جماعتوں نے علیحدگی اختیار کر کے اپنے اپنے راستے اختیار کیے۔

عمر اور محبوبہ دونوں بھاری اکثریت سے بارہمولہ اور اننت ناگ-راجوری نشستوں سے پارلیمانی انتخابات ہار گئے تھے۔ عمر کو جیل میں بند عبد الرشید شیخ المعروف انجینئر رشید نے شکست دی تھی، جبکہ محبوبہ کو این سی کے گجر لیڈر میاں الطاف کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

دونوں رہنماؤں نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت ہند کو جماعت اسلامی پر عائد پابندی ہٹا کر ان کی ضبط شدہ جائیدادیں اور ادارے بحال کرنے چاہئیں۔ جبکہ عمر عبداللہ پابندی ختم کرنے اور تنظیم کے نشان ’’قلم اور دوات‘‘ جو اب پی ڈی پی کو الاٹ کیا گیا ہے، کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے چار سابق ارکان - طلعت مجید، سائر احمد ریشی، نذیر احمد بھٹ اور عمر حمید ملا - نے بھی پلوامہ، کولگام، دیوسر اور زینہ پورہ اسمبلی حلقوں سے آئندہ اسمبلی انتخابات لڑنے کے لیے بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ترال اور بجبہاڑہ - سریگفوارہ سے کسی سابق جماعت اسلامی کے رکن کو میدان میں نہیں اتارا گیا، جہاں صرف تین امیدوار - پی ڈی پی کی التجا، این سی کے بشیر ویری اور بی جے پی کے صوفی یوسف مدمقابل ہیں۔

بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے جماعت اسلامی پر 28 فروری 2019 کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) 1967 کے تحت پابندی عائد کی تھی۔ جماعت اسلامی کو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہوئے خودکش حملے ( جس میں 40 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک ہوئے تھے) کے 14 دن بعد یعنی 28فروری 2019کو ’’غیر قانونی تنظیم‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے اس کے دفاتر اور جائیدادیں ضبط کر لی تھیں۔

اس سے قبل جماعت اسلامی نے 1987 تک انتخابات میں حصہ لیا تھا، تاہم 1987 کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرکے تنظیم نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور تب سے وادی میں علیحدگی پسندی کی حمایت کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی کشمیر: اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک

سرینگر: جموں کشمیر میں اگلے ماہ سے منعقدہ ہو رہے اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی کی شمولیت پر دو سابق وزرائے اعلیٰ میں لفظی جنگ، شروع ہو گئی ہے۔ دونوں سابق وزراء اعلیٰ تشہیری مہم میں اپنی پارٹی منشور کے بجائے جماعت اسلامی کو انتخابی مسئلہ بنا کر ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو پہلگام میں کہا کہ جماعت اسلامی کے لیے وہ انتخابات جو گزشتہ 30 سال سے ’حرام‘ تھے، اب ’حلال‘ ہو گئے ہیں۔

عمر عبداللہ نے انتخابی مہم کے دوران کہا: ’’پچھلے 30 برسوں سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ انتخابات حرام ہیں، مگر اب یہ حلال ہو گئے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ جماعت نے اچانک اپنا 30 سالہ موقف بدل لیا ہے، جو کہ اچھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ ان پر عائد پابندی ختم ہو جائے گی اور وہ اپنے نام اور نشان پر انتخاب لڑ سکیں گے۔‘‘

سیاسی حریف کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایک ایسے لیڈر کی طرف سے یہ بیان انتہائی افسوسناک ہے جس کی سیاسی تاریخ خود ’حرام، حلال‘ انتخابات پر مبنی ہے۔ محبوبہ مفتی نے سرینگر میں صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے حیرت ہے کہ نیشنل کانفرنس، جموں و کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے۔ حقیقت میں، حلال، حرام انتخابات کا آغاز جموں و کشمیر میں این سی نے ہی کیا۔‘‘

دونوں سابق وزرائے اعلیٰ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کا حصہ تھے، جس کا قیام 4 اگست 2019 کو دفعہ 370کے دفاع کے لیے عمل میں آیا۔ تاہم دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی کے بعد پی اے جی ڈی سے وابستہ اکائیوں نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا عہد کیا۔ تاہم، پارلیمانی انتخابات کے اعلان کے بعد پی اے جی ڈی کا شیرازہ بکھر گیا پی اے جی ڈی اور سے وابستہ جماعتوں نے علیحدگی اختیار کر کے اپنے اپنے راستے اختیار کیے۔

عمر اور محبوبہ دونوں بھاری اکثریت سے بارہمولہ اور اننت ناگ-راجوری نشستوں سے پارلیمانی انتخابات ہار گئے تھے۔ عمر کو جیل میں بند عبد الرشید شیخ المعروف انجینئر رشید نے شکست دی تھی، جبکہ محبوبہ کو این سی کے گجر لیڈر میاں الطاف کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

دونوں رہنماؤں نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت ہند کو جماعت اسلامی پر عائد پابندی ہٹا کر ان کی ضبط شدہ جائیدادیں اور ادارے بحال کرنے چاہئیں۔ جبکہ عمر عبداللہ پابندی ختم کرنے اور تنظیم کے نشان ’’قلم اور دوات‘‘ جو اب پی ڈی پی کو الاٹ کیا گیا ہے، کو بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے چار سابق ارکان - طلعت مجید، سائر احمد ریشی، نذیر احمد بھٹ اور عمر حمید ملا - نے بھی پلوامہ، کولگام، دیوسر اور زینہ پورہ اسمبلی حلقوں سے آئندہ اسمبلی انتخابات لڑنے کے لیے بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ترال اور بجبہاڑہ - سریگفوارہ سے کسی سابق جماعت اسلامی کے رکن کو میدان میں نہیں اتارا گیا، جہاں صرف تین امیدوار - پی ڈی پی کی التجا، این سی کے بشیر ویری اور بی جے پی کے صوفی یوسف مدمقابل ہیں۔

بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے جماعت اسلامی پر 28 فروری 2019 کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) 1967 کے تحت پابندی عائد کی تھی۔ جماعت اسلامی کو پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہوئے خودکش حملے ( جس میں 40 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک ہوئے تھے) کے 14 دن بعد یعنی 28فروری 2019کو ’’غیر قانونی تنظیم‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے اس کے دفاتر اور جائیدادیں ضبط کر لی تھیں۔

اس سے قبل جماعت اسلامی نے 1987 تک انتخابات میں حصہ لیا تھا، تاہم 1987 کے اسمبلی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرکے تنظیم نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور تب سے وادی میں علیحدگی پسندی کی حمایت کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جماعت اسلامی کشمیر: اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک

Last Updated : Aug 30, 2024, 7:59 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.