ETV Bharat / jammu-and-kashmir

عمر عبداللہ کی حکومت دفعہ370 کی بحالی پر جموں کشمیر اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کو تیار - RESOLUTION ON ARTICLE 370

نیشنل کانفرنس نے جموں کشمیر اسمبلی میں آرٹیکل 370 کی بحالی کی قرارداد اپنی اکثریت کے بل بوتے پر پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ا
دفعہ 370کو اگست 2019میں منسوخ کیا گیا (ETV Bharat Graphics)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 28, 2024, 6:44 PM IST

سرینگر : جموں کشمیر میں دس سال بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے اور نیشنل کانفرنس کی زیر اقتدار ریاستی حکومت نے پہلے اسمبلی اجلاس میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے قرارداد پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایوان کے سرکاری بنچز کی طرف سے پیش کی جانے والی یہ قرارداد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 میں پارلیمنٹ میں لئے گئے فیصلے کے خلاف پہلی باضابطہ سرکاری مخالفت ہوگی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق یہ قرارداد اسمبلی کے 90 رکنی ایوان میں پیش کی جائے گی اور اس کی منظوری کے لیے حکومت پر عزم ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ’’ہمارا وعدہ ہے کہ ہم آرٹیکل 370 کی بحالی پر قرارداد پیش کریں گے۔ یہ (دفعہ 370کی منسوخی) غیر آئینی اقدام تھا اور ہمارا انتخابی منشور بھی یہی تھا۔‘‘ اطلاعات کے مطابق یہ قرارداد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے پیش کی جائے گی، جو وزارت قانون اور پارلیمانی امور کا قلمدان بھی رکھتے ہیں۔ قرارداد کے متن میں مرکز سے جموں و کشمیر کی مکمل ریاستی بحالی کا مطالبہ ہے، جس میں لداخ یونین ٹیریٹری کا جموں و کشمیر میں دوبارہ ادغام کا مطالبہ بھی شامل ہوگا۔

2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی

پانچ اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تھی، جس کے تحت آرٹیکل 35 اے بھی خود بخود منسوخ ہوگیا۔ آرٹیکل 35 اے ریاستی اسمبلی کو مستقل شہریوں کی وضاحت/تشریح کرنے کا اختیار دیتا تھا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تنظیم نو قانون پاس کرکے جموں و کشمیر کی حیثیت کو گھٹا کر یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا اور لداخ کو ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا۔

نیشنل کانفرنس کا عزم

عمر عبداللہ حکومت نے پہلی کابینہ میٹنگ میں 17 اکتوبر کو ریاست کی بحالی کے لیے قرارداد پاس کی تھی، تاہم آرٹیکل 370 کو دستوری طریقے کے تحت اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آرٹیکل 370 پر قرارداد اسمبلی میں پیش کرنا قانونی تقاضا ہے، جبکہ ریاستی حیثیت کی بحالی حکومتی دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

وفاق سے روابط

عمر عبداللہ نے قرارداد کا مسودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو پیش کیا، جس میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل کانفرنس نے حالیہ انتخابات میں آرٹیکل 370 کی بحالی کو اپنے کلیدی منشور کا حصہ بنایا تھا اور ان انتخابات میں انہوں نے زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے 42 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی مدد سے سرکاری نشستوں کی مجموعی تعداد 55 ہوگئی، جو اس قرارداد کی منظوری میں معاون ثابت ہوگی۔

اسمبلی کے اندر متوقع کارروائی

نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ قرارداد کو ووٹ کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ بی جے پی اس قرارداد کی بھرپور مخالفت کرے گی تاہم حکومتی ذرائع کا ماننا ہے کہ حزب اختلاف میں شامل کچھ ارکان جیسے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے تین ارکان اور سجاد لون کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

قانونی اثرات اور ماضی کی مثالیں

اگرچہ قانونی طور پر مرکز اس قرارداد کی پابند نہیں ہوگی تاہم یہ اقدام ممکنہ طور پر مرکز کے ساتھ عمر عبداللہ کی قیادت میں حکومت کے تعلقات پر اثر ڈال سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو برقرار رکھ چکی ہے، تاہم یہ قرارداد ریاست کی جانب سے مخالفت کی علامت ہوگی۔

قبل ازیں 2000 میں نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں جموں و کشمیر کے لیے 1953 کی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں حکومت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

بی جے پی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی عمر عبداللہ کی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے حالیہ ملاقات کو مثبت نظر سے دیکھ رہی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کی قرارداد کے معاملے پر سخت مخالفت کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی حیثیت کی بحالی کی قرارداد، مرکز پر دباؤ یا محض علامتی اقدام؟

سرینگر : جموں کشمیر میں دس سال بعد اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے اور نیشنل کانفرنس کی زیر اقتدار ریاستی حکومت نے پہلے اسمبلی اجلاس میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے قرارداد پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ایوان کے سرکاری بنچز کی طرف سے پیش کی جانے والی یہ قرارداد بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2019 میں پارلیمنٹ میں لئے گئے فیصلے کے خلاف پہلی باضابطہ سرکاری مخالفت ہوگی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق یہ قرارداد اسمبلی کے 90 رکنی ایوان میں پیش کی جائے گی اور اس کی منظوری کے لیے حکومت پر عزم ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ’’ہمارا وعدہ ہے کہ ہم آرٹیکل 370 کی بحالی پر قرارداد پیش کریں گے۔ یہ (دفعہ 370کی منسوخی) غیر آئینی اقدام تھا اور ہمارا انتخابی منشور بھی یہی تھا۔‘‘ اطلاعات کے مطابق یہ قرارداد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے پیش کی جائے گی، جو وزارت قانون اور پارلیمانی امور کا قلمدان بھی رکھتے ہیں۔ قرارداد کے متن میں مرکز سے جموں و کشمیر کی مکمل ریاستی بحالی کا مطالبہ ہے، جس میں لداخ یونین ٹیریٹری کا جموں و کشمیر میں دوبارہ ادغام کا مطالبہ بھی شامل ہوگا۔

2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی

پانچ اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں پارلیمنٹ نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کی تھی، جس کے تحت آرٹیکل 35 اے بھی خود بخود منسوخ ہوگیا۔ آرٹیکل 35 اے ریاستی اسمبلی کو مستقل شہریوں کی وضاحت/تشریح کرنے کا اختیار دیتا تھا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تنظیم نو قانون پاس کرکے جموں و کشمیر کی حیثیت کو گھٹا کر یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا اور لداخ کو ایک علیحدہ یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا۔

نیشنل کانفرنس کا عزم

عمر عبداللہ حکومت نے پہلی کابینہ میٹنگ میں 17 اکتوبر کو ریاست کی بحالی کے لیے قرارداد پاس کی تھی، تاہم آرٹیکل 370 کو دستوری طریقے کے تحت اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق آرٹیکل 370 پر قرارداد اسمبلی میں پیش کرنا قانونی تقاضا ہے، جبکہ ریاستی حیثیت کی بحالی حکومتی دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

وفاق سے روابط

عمر عبداللہ نے قرارداد کا مسودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو پیش کیا، جس میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل کانفرنس نے حالیہ انتخابات میں آرٹیکل 370 کی بحالی کو اپنے کلیدی منشور کا حصہ بنایا تھا اور ان انتخابات میں انہوں نے زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے 42 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی مدد سے سرکاری نشستوں کی مجموعی تعداد 55 ہوگئی، جو اس قرارداد کی منظوری میں معاون ثابت ہوگی۔

اسمبلی کے اندر متوقع کارروائی

نیشنل کانفرنس کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ قرارداد کو ووٹ کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ بی جے پی اس قرارداد کی بھرپور مخالفت کرے گی تاہم حکومتی ذرائع کا ماننا ہے کہ حزب اختلاف میں شامل کچھ ارکان جیسے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے تین ارکان اور سجاد لون کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔

قانونی اثرات اور ماضی کی مثالیں

اگرچہ قانونی طور پر مرکز اس قرارداد کی پابند نہیں ہوگی تاہم یہ اقدام ممکنہ طور پر مرکز کے ساتھ عمر عبداللہ کی قیادت میں حکومت کے تعلقات پر اثر ڈال سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو برقرار رکھ چکی ہے، تاہم یہ قرارداد ریاست کی جانب سے مخالفت کی علامت ہوگی۔

قبل ازیں 2000 میں نیشنل کانفرنس نے اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں جموں و کشمیر کے لیے 1953 کی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں حکومت نے اسے مسترد کر دیا تھا۔

بی جے پی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی عمر عبداللہ کی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے حالیہ ملاقات کو مثبت نظر سے دیکھ رہی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کی قرارداد کے معاملے پر سخت مخالفت کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی حیثیت کی بحالی کی قرارداد، مرکز پر دباؤ یا محض علامتی اقدام؟

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.