ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کوئی منتخب اسمبلی نہیں! آرٹیکل 370 کی منسوخی کی پانچویں برسی پر سجاد لون کا رد عمل - Sajad Lone on Article 370

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 5, 2024, 12:07 PM IST

وزیر اعظم نریندر مودی کو بڑا بھائی کہنے والے اور پی ڈی پی - بی جے پی مخلوط سرکار میں وزیر رہ چکے سجاد لون نے بھی دفعہ 370 کی منسوخی کی پانچویں برسی کے موقعے پر مرکزی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ا
سجاد غنی لون (دائیں)۔ (فائل فوٹو)

سرینگر (جموں و کشمیر): جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (JKPC) کے چیئرمین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے دفعہ 370کی منسوخی کے پانچویں سالگرہ کے موقع پر جموں کشمیر میں منتخب اسمبلی نہ ہونے کی سخت تنقید کی۔ پی ڈی پی - بی جے پی مخلوط سرکار میں وزیر رہ چکے سجاد غنی لون نے بھی دفعہ 370کی منسوخی کی سماجی رابطہ گاہ ایکس پر مذمت کی۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں لون نے کہا: ’’5 اگست ہمیشہ کشمیری عوام کو پوری طرح بے اختیار بنائے جانے کی ایک قبیح مثال رہے گی۔ پانچ سال بعد بھی (جموں کشمیر میں) کوئی منتخب اسمبلی نہیں ہے اور مقامی لوگوں کا اپنے معاملات چلانے میں کوئی کردار اور کوئی حصہ داری نہیں ہے۔‘‘ لون نے جموں کشمیر کے حقوق کی وکالت کرنے والی ہندوستان میں بااثر آوازوں کی عدم موجودگی پر مزید افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’افسوس کی بات ہے کہ ملک میں اتنی طاقتور آوازیں نہیں ہیں جو یہ سوال کر سکیں کہ جموں و کشمیر کو اس طرح کے ذلت آمیز وجود کے لیے منتخب طور پر کیوں نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘

یاد رہے کہ جموں و کشمیر میں آخری مرتبہ اسمبلی انتخابات سال 2014 میں منعقد ہوئے اور (سابق) ریاست میں پی ڈی پی - بی جے پی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ یہ اتحاد اس وقت ختم ہوا جب بی جے پی نے 18 جون 2018 کو محبوبہ مفتی سے حمایت واپس لے لی اور جموں و کشمیر میں صدر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو ہنوز جاری ہے۔

سال 2018میں حمایت واپس لینے کے بعد بعض مقامی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کرنے کی کوشش کی اور حکومت بنائے جانے کی درخواست اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک کو بھیجی جنہوں نے ’’فیکس مشین خراب ہونے‘‘ اور سیاسی جماعتوں کا دعوت نامہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلی کو ہی تحلیل کر دیا ور تب سے کسی نہ کسی وجہ سے اسمبلی الیکشن کو ٹال دیا گیا۔ سال 2019میں یہاں لوک سبھا انتخابات منعقد ہوئے مگر اسمبلی انتخابات کو منعقد نہیں کیا گیا۔

پانچ اگست 2019کو دوبارہ مرکز میں مضبوط حکومت بنانے والی بی جے پی نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370کو منسوخ کر کے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز - جموں کشمیر اور لداخ - میں منقسم کر دیا۔ اور جموں و کشمیر میں انتظام چلانے کا مکمل اختیار لیفٹیننٹ گورنر کے سپرد کر دیا، جبکہ گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے تنظیم نو ایکٹ کے تحت لیفٹیننٹ گورنر کو مزید با اختیار بنایا ہے۔

یہاں کی سیاسی جماعتوں نے مسلسل ریاست کا درجہ بحال کرنے اور اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی رواں سال ستمبر ماہ میں یہاں اسمبلی الیکشن منعقد کرنے کی سفارش کی ہے، تاہم اس کے باوجود یہاں الیکشن منعقد نہیں کیے جا رہے۔ حزب اختلاف سیاسی جماعتیں خصوصاً کانگریس پارٹی حالیہ کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے اور یہاں الیکشن منعقد کروانے سے متعلق گزشتہ دو ہفتوں سے احتجاج کر رہی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پانچ سال، انتظامیہ تقریباً 90 ملازمین کو برطرف کر چکی، جانیے اب تک کیا کیا ہوا

سرینگر (جموں و کشمیر): جموں کشمیر پیپلز کانفرنس (JKPC) کے چیئرمین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے دفعہ 370کی منسوخی کے پانچویں سالگرہ کے موقع پر جموں کشمیر میں منتخب اسمبلی نہ ہونے کی سخت تنقید کی۔ پی ڈی پی - بی جے پی مخلوط سرکار میں وزیر رہ چکے سجاد غنی لون نے بھی دفعہ 370کی منسوخی کی سماجی رابطہ گاہ ایکس پر مذمت کی۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں لون نے کہا: ’’5 اگست ہمیشہ کشمیری عوام کو پوری طرح بے اختیار بنائے جانے کی ایک قبیح مثال رہے گی۔ پانچ سال بعد بھی (جموں کشمیر میں) کوئی منتخب اسمبلی نہیں ہے اور مقامی لوگوں کا اپنے معاملات چلانے میں کوئی کردار اور کوئی حصہ داری نہیں ہے۔‘‘ لون نے جموں کشمیر کے حقوق کی وکالت کرنے والی ہندوستان میں بااثر آوازوں کی عدم موجودگی پر مزید افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’افسوس کی بات ہے کہ ملک میں اتنی طاقتور آوازیں نہیں ہیں جو یہ سوال کر سکیں کہ جموں و کشمیر کو اس طرح کے ذلت آمیز وجود کے لیے منتخب طور پر کیوں نشانہ بنایا گیا ہے؟‘‘

یاد رہے کہ جموں و کشمیر میں آخری مرتبہ اسمبلی انتخابات سال 2014 میں منعقد ہوئے اور (سابق) ریاست میں پی ڈی پی - بی جے پی کی اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ یہ اتحاد اس وقت ختم ہوا جب بی جے پی نے 18 جون 2018 کو محبوبہ مفتی سے حمایت واپس لے لی اور جموں و کشمیر میں صدر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا جو ہنوز جاری ہے۔

سال 2018میں حمایت واپس لینے کے بعد بعض مقامی سیاسی جماعتوں نے اتحاد کرنے کی کوشش کی اور حکومت بنائے جانے کی درخواست اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک کو بھیجی جنہوں نے ’’فیکس مشین خراب ہونے‘‘ اور سیاسی جماعتوں کا دعوت نامہ وصول نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلی کو ہی تحلیل کر دیا ور تب سے کسی نہ کسی وجہ سے اسمبلی الیکشن کو ٹال دیا گیا۔ سال 2019میں یہاں لوک سبھا انتخابات منعقد ہوئے مگر اسمبلی انتخابات کو منعقد نہیں کیا گیا۔

پانچ اگست 2019کو دوبارہ مرکز میں مضبوط حکومت بنانے والی بی جے پی نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370کو منسوخ کر کے ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز - جموں کشمیر اور لداخ - میں منقسم کر دیا۔ اور جموں و کشمیر میں انتظام چلانے کا مکمل اختیار لیفٹیننٹ گورنر کے سپرد کر دیا، جبکہ گزشتہ دنوں مرکزی حکومت نے تنظیم نو ایکٹ کے تحت لیفٹیننٹ گورنر کو مزید با اختیار بنایا ہے۔

یہاں کی سیاسی جماعتوں نے مسلسل ریاست کا درجہ بحال کرنے اور اسمبلی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے بھی رواں سال ستمبر ماہ میں یہاں اسمبلی الیکشن منعقد کرنے کی سفارش کی ہے، تاہم اس کے باوجود یہاں الیکشن منعقد نہیں کیے جا رہے۔ حزب اختلاف سیاسی جماعتیں خصوصاً کانگریس پارٹی حالیہ کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے اور یہاں الیکشن منعقد کروانے سے متعلق گزشتہ دو ہفتوں سے احتجاج کر رہی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 370 کی منسوخی کے پانچ سال، انتظامیہ تقریباً 90 ملازمین کو برطرف کر چکی، جانیے اب تک کیا کیا ہوا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.