ETV Bharat / jammu-and-kashmir

باپ کا پرانا میدان، بیٹے کا نیا خواب: ڈاؤن ٹاؤن کے ساگر میں کس کی ہوگی جیت؟ - NC Father Son Duo Vs PDP

سرینگر کے پائین شہر یا ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر اور ان کے بیٹے سلمان ساگر پی ڈی پی کی سابق وزیر آسیہ نقاش اور ایک نئے امیدوار تفضل مشتاق کے خلاف انتخابات لڑ رہے ہیں۔ علی ساگر اسی کی دہائی سے خانیار اسمبلی حلقے کی نمائندگی کررہے ہیں جبکہ انکے فرزند شہر کے میئر رہ چکے ہیں۔ پارٹی نے باپ بیٹے کو کیوں شہر کی دو اہم نشستوں پر میدان میں اتارا ، اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں۔

سرینگر میں انتخابات 25ستمبر کو ہوں گے
(دائیں سے بائیں)آسیہ نقاش، خوشرید عالم، سلمان ساگر، علی محمد ساگر (ETV Bharat Graphics)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 2, 2024, 3:18 PM IST

Updated : Sep 3, 2024, 3:02 PM IST

سرینگر: میر فرحت

کشمیر کی سب سے بڑی اور قدیم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے یونین ٹیریٹری میں دس سال بعد منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پانچ سینئر سیاستدانوں کے بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے جبکہ دو حلقوں میں باپ بیٹے کو منڈیٹ دیا ہے۔ ان انتخابات میں سیاسی حالات اور جموں و کشمیر کی نئی حد بندی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر، جو سرینگر کے خانیار حلقے سے چھ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں، اس بار ساتویں بار اپنی قسمت آزمانے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے وفادار کارکن کو ایک آسان مقابلہ درپیش ہے حالانکہ حلقے کی حد بندی کے بعد اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ساگر کا مقابلہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نئے امیدوار تفضل مشتاق سے ہوگا۔ اس حلقے میں 91226 ووٹرز امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

ڈاؤن ٹاؤن سرینگر ہمیشہ سے علیحدگی پسندوں کا گڑھ اور نیشنل کانفرنس کے پرانے حریف مرحوم میرواعظ محمد فاروق کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔ ان کے بیٹے میرواعظ عمر فاروق، جو کشمیر کی تاریخی جامع مسجد کے خطیب ہیں، کا علاقے میں ایک بڑا اثر و رسوخ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن ہمیشہ سے الیکشن بائیکاٹ کا مرکز رہا ہے، لیکن نیشنل کانفرنس 1983 سے خانیار کی نشست پر کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ ایک سرینگر نشین صحافی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ساگر کی مسلسل جیت میں نیشنل کانفرنس کے ان دیرینہ کارکنوں کا ہمیشہ ہاتھ رہا جو کسی بھی صورتحال میں نیشنل کانفرنس کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ انہون نے کہا کہ ایک الیکشن میں انہوں نے پائین شہر کے ایک پولنگ پوتھ پر صرف ایک ووٹر کو اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا۔ استفسار پر اس ووتر نے کہا کہ انکے کاندان نے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ عہد کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا ووٹ انکی پارٹی کو ہی دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بوتھ پر دن بھر صرف ایک ہی ووٹ ڈالا گیا۔

علی ساگر 1983 سے خانیار حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 1983 تک خانیار حلقہ انتخاب کو زینہ کدل کے نام سے جانا جاتا تھا۔ خانیار، سرینگر کے ڈاؤن ٹاون علاقے کے گیٹ وے کے طور پر جانا جاتا ہے اور 2018 میں باب الاقبال کے نام سے یہاں ایک گیٹ بھی بنایا گیا۔ ان کے فرزند سلمان ساگر، جو پارٹی کے صوبائی یوتھ صدر ہیں، اپنا پہلا اسمبلی الیکشن خانیار کے متصلہ حلقے حضرتبل سے لڑ رہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ پی ڈی پی کی سابق وزیر آسیہ نقاش سے ہوگا جنہوں نے 2014 میں یہ نشست جیتی تھی۔ نقاش پی ڈی پی - بی جے پی اتحادی حکومت میں وزیر مملکت تھیں۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں نقاش نے 13231 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے نیشنل کانفرنس کے حریف محمد سعید آخون نے 9825 ووٹ حاصل کیے تھے۔

نیشنل کانفرنس نے حضرتبل کی نشست 2002 اور 2008 کے انتخابات میں بڑے مارجن سے جیتی تھی، لیکن 2014 میں ووٹرز نے پی ڈی پی کی نقاش پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس بار سینئر خاتون سیاستدان کا مقابلہ نیشنل کانفرنس کے نئے امیدوار کے ساتھ ہوگا اور 112541 ووٹرز امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

سال 1983 سے خانیار سے مسلسل کامیاب ہوتے آ رہے علی محمد ساگر کے فرزند سلمان ساگر کا کہنا ہے کہ کوئی بھی الیکشن آسان نہیں ہوتا۔ 2014 کے انتخابات میں علی ساگر کا مقابلہ پی ڈی پی کے امیدوار خورشید عالم سے تھا جنہوں نے 5332 ووٹ حاصل کیے جبکہ علی ساگر کو 6330 ووٹ ملے- یہ وہ واحد موقع تھا جب علی ساگر کو اپنے حلقے میں کسی حریف نے زبردست مقابلہ دیا تھا۔ خورشید عالم 2019 کے بعد پی ڈی پی سے فرنٹ ہوگئے تھے اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس میں شامل ہوگئے تھے لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے دوبارہ پلٹی ماری ہے اور واپس پی ڈی پی کی جھولی میں آگئے ہیں۔ خورشید عالم ماضی میں ایک متنازع ٹریڈ یونین لیڈر رہے ہیں۔ اس بار وہ خانیار کے بجائے سرینگر کے عیدگاہ حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں انکا مقابلہ ساگر کے دیرینی ساتھی اور سابق اسمبلی اسپیکر مبارک گل کے ساتھ ہے۔ خورشید عالم جموں و کشمیر کے امیر ترین سیاستدانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

سلمان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم عوام سے ان کی حمایت حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ لوگ اپنے حقوق سے محرومی اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ ان کی حریف آسیہ نقاش نے کہا کہ انتخابات میں چہرے یا پارٹیاں اہم نہیں ہوتیں بلکہ وہ امیدوار اہم ہوتا ہے جو عوامی مسائل کے حل کے لیے منصوبہ رکھتا ہو۔ انہوں نے کہا: ’’حد بندی کے بعد حضرتبل حلقے میں کئی نئے علاقے شامل کیے گئے ہیں، لیکن عوام وہی ہے، ان کے مسائل وہی ہیں، اس لیے سرینگر میں حد بندی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘

جونیئر ساگر کا کہنا ہے کہ ’’حد بندی نے سرینگر کی حلقہ بندی کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے، اسی طرح خانیار اور حضرتبل بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ پارلیمانی انتخابات کے ووٹنگ پیٹرن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرینگر کی تمام آٹھ نشستوں پر ہماری پارٹی کو زبردست حمایت ملی۔ ہمیں امید ہے کہ لوگ دوبارہ ہماری حمایت کریں گے۔‘‘ حضرت بل حلقے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور انکے چھوٹے بھائی داکٹر شیخ مصطفیٰ کمال بھی ماجی میں منتخب ہوئے ہیں۔ یہ دونوں بھائی اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

سرینگر کی آٹھ اسمبلی نشستوں پر دوسرے مرحلے میں یعنی 25ستمبر کو پولنگ ہوگی جبکہ اس مرحلے میں کل 26 حلقوں میں پولنگ ہوگی۔ جموں و کشمیر، جسے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا تھا، 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں پولنگ کے لیے تیار ہے اور پہلے مرحلے میں 24 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی، جبکہ آخری مرحلے میں 40نشستوں پر یکم اکتوبر کو ووٹنگ ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: نو خواتین، نو کہانیاں: پہلے مرحلے میں نو خاتون امیدوار، گلشن سے میناکشی تک، سبھی کی الگ الگ شناخت

سرینگر: میر فرحت

کشمیر کی سب سے بڑی اور قدیم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس (این سی) نے یونین ٹیریٹری میں دس سال بعد منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پانچ سینئر سیاستدانوں کے بیٹوں کو میدان میں اتارا ہے جبکہ دو حلقوں میں باپ بیٹے کو منڈیٹ دیا ہے۔ ان انتخابات میں سیاسی حالات اور جموں و کشمیر کی نئی حد بندی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر، جو سرینگر کے خانیار حلقے سے چھ بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں، اس بار ساتویں بار اپنی قسمت آزمانے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کے وفادار کارکن کو ایک آسان مقابلہ درپیش ہے حالانکہ حلقے کی حد بندی کے بعد اس میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ساگر کا مقابلہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نئے امیدوار تفضل مشتاق سے ہوگا۔ اس حلقے میں 91226 ووٹرز امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

ڈاؤن ٹاؤن سرینگر ہمیشہ سے علیحدگی پسندوں کا گڑھ اور نیشنل کانفرنس کے پرانے حریف مرحوم میرواعظ محمد فاروق کا مضبوط قلعہ رہا ہے۔ ان کے بیٹے میرواعظ عمر فاروق، جو کشمیر کی تاریخی جامع مسجد کے خطیب ہیں، کا علاقے میں ایک بڑا اثر و رسوخ ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن ہمیشہ سے الیکشن بائیکاٹ کا مرکز رہا ہے، لیکن نیشنل کانفرنس 1983 سے خانیار کی نشست پر کامیاب ہوتی آرہی ہے۔ ایک سرینگر نشین صحافی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ساگر کی مسلسل جیت میں نیشنل کانفرنس کے ان دیرینہ کارکنوں کا ہمیشہ ہاتھ رہا جو کسی بھی صورتحال میں نیشنل کانفرنس کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ انہون نے کہا کہ ایک الیکشن میں انہوں نے پائین شہر کے ایک پولنگ پوتھ پر صرف ایک ووٹر کو اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا۔ استفسار پر اس ووتر نے کہا کہ انکے کاندان نے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ عہد کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا ووٹ انکی پارٹی کو ہی دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بوتھ پر دن بھر صرف ایک ہی ووٹ ڈالا گیا۔

علی ساگر 1983 سے خانیار حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 1983 تک خانیار حلقہ انتخاب کو زینہ کدل کے نام سے جانا جاتا تھا۔ خانیار، سرینگر کے ڈاؤن ٹاون علاقے کے گیٹ وے کے طور پر جانا جاتا ہے اور 2018 میں باب الاقبال کے نام سے یہاں ایک گیٹ بھی بنایا گیا۔ ان کے فرزند سلمان ساگر، جو پارٹی کے صوبائی یوتھ صدر ہیں، اپنا پہلا اسمبلی الیکشن خانیار کے متصلہ حلقے حضرتبل سے لڑ رہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ پی ڈی پی کی سابق وزیر آسیہ نقاش سے ہوگا جنہوں نے 2014 میں یہ نشست جیتی تھی۔ نقاش پی ڈی پی - بی جے پی اتحادی حکومت میں وزیر مملکت تھیں۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں نقاش نے 13231 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے نیشنل کانفرنس کے حریف محمد سعید آخون نے 9825 ووٹ حاصل کیے تھے۔

نیشنل کانفرنس نے حضرتبل کی نشست 2002 اور 2008 کے انتخابات میں بڑے مارجن سے جیتی تھی، لیکن 2014 میں ووٹرز نے پی ڈی پی کی نقاش پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس بار سینئر خاتون سیاستدان کا مقابلہ نیشنل کانفرنس کے نئے امیدوار کے ساتھ ہوگا اور 112541 ووٹرز امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

سال 1983 سے خانیار سے مسلسل کامیاب ہوتے آ رہے علی محمد ساگر کے فرزند سلمان ساگر کا کہنا ہے کہ کوئی بھی الیکشن آسان نہیں ہوتا۔ 2014 کے انتخابات میں علی ساگر کا مقابلہ پی ڈی پی کے امیدوار خورشید عالم سے تھا جنہوں نے 5332 ووٹ حاصل کیے جبکہ علی ساگر کو 6330 ووٹ ملے- یہ وہ واحد موقع تھا جب علی ساگر کو اپنے حلقے میں کسی حریف نے زبردست مقابلہ دیا تھا۔ خورشید عالم 2019 کے بعد پی ڈی پی سے فرنٹ ہوگئے تھے اور سجاد لون کی پیپلز کانفرنس میں شامل ہوگئے تھے لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے دوبارہ پلٹی ماری ہے اور واپس پی ڈی پی کی جھولی میں آگئے ہیں۔ خورشید عالم ماضی میں ایک متنازع ٹریڈ یونین لیڈر رہے ہیں۔ اس بار وہ خانیار کے بجائے سرینگر کے عیدگاہ حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں انکا مقابلہ ساگر کے دیرینی ساتھی اور سابق اسمبلی اسپیکر مبارک گل کے ساتھ ہے۔ خورشید عالم جموں و کشمیر کے امیر ترین سیاستدانوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

سلمان نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم عوام سے ان کی حمایت حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ لوگ اپنے حقوق سے محرومی اور بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘ ان کی حریف آسیہ نقاش نے کہا کہ انتخابات میں چہرے یا پارٹیاں اہم نہیں ہوتیں بلکہ وہ امیدوار اہم ہوتا ہے جو عوامی مسائل کے حل کے لیے منصوبہ رکھتا ہو۔ انہوں نے کہا: ’’حد بندی کے بعد حضرتبل حلقے میں کئی نئے علاقے شامل کیے گئے ہیں، لیکن عوام وہی ہے، ان کے مسائل وہی ہیں، اس لیے سرینگر میں حد بندی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘

جونیئر ساگر کا کہنا ہے کہ ’’حد بندی نے سرینگر کی حلقہ بندی کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے، اسی طرح خانیار اور حضرتبل بھی متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن حالیہ پارلیمانی انتخابات کے ووٹنگ پیٹرن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرینگر کی تمام آٹھ نشستوں پر ہماری پارٹی کو زبردست حمایت ملی۔ ہمیں امید ہے کہ لوگ دوبارہ ہماری حمایت کریں گے۔‘‘ حضرت بل حلقے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور انکے چھوٹے بھائی داکٹر شیخ مصطفیٰ کمال بھی ماجی میں منتخب ہوئے ہیں۔ یہ دونوں بھائی اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

سرینگر کی آٹھ اسمبلی نشستوں پر دوسرے مرحلے میں یعنی 25ستمبر کو پولنگ ہوگی جبکہ اس مرحلے میں کل 26 حلقوں میں پولنگ ہوگی۔ جموں و کشمیر، جسے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا تھا، 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پہلے مرحلے میں پولنگ کے لیے تیار ہے اور پہلے مرحلے میں 24 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی، جبکہ آخری مرحلے میں 40نشستوں پر یکم اکتوبر کو ووٹنگ ہوگی۔ ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: نو خواتین، نو کہانیاں: پہلے مرحلے میں نو خاتون امیدوار، گلشن سے میناکشی تک، سبھی کی الگ الگ شناخت

Last Updated : Sep 3, 2024, 3:02 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.