سرینگر (جموں کشمیر): کشمیر میں سرکاری ملازمت نہ ملنے کے پیش نظر اب نوجوان مشروم کی کاستکاری سے اپنا روزگار کما رہے ہیں۔ مشروم کی کاشت کاری سے اب اس کی تجارت بھی بڑھ گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی پیداروا میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2012 میں کشمیر میں مشروم کی پیداروا 1500 کوئنٹل تھی اور اب یہ پیداوار 4875 کوئینٹل تک بڑھ گئی ہے۔
محکمہ زراعت نے مشروم کی کاشتکاری کو فروغ دینے کے لئے ہالسٹک ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت ’’پرموشن آف راوئنڈ دی ایئر مشروم کلٹیویشن‘‘ (Promotion of Round the Year Mushroom Cultivation) اسکیم کے لئے 42 کروڑ روپئے کی رقم واگزار کی ہے جس کے تحت 3266 مشروم یونٹ لگائے گئے ہیں جن سے 4876 کوئنٹل مشروم کاشت کئے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ بے روزگار نوجوانوں کو مشروم کی کاشت کاری کے لئے راغب کر رہا ہے۔
نوجوانوں کی دلچسپی دیکھ کر اب محکمہ زراعت نے مشروم کو روایتی طریقے کے بجائے اب سائنسی بنیادوں پر مشروم کی کاشت کرنے کا اسکیم شروع کی ہے۔ اسکیم کی جانکاری دیتے ہوئے محکمہ زراعت کے جوائنٹ ڈائریکٹر مشروم، سرتاج احمد شاہ نے بتایا کہ ہالسٹک ڈیولپمنٹ پروجیکٹ (Holistic Development Project) کے تحت مشروم کی منافع بخش کاشتکاری کو فروغ دینا ہے۔ جوائنٹ ڈائریکٹر مشروم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سرکار ہالسٹک ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت کنٹرولڈ مشروم یونٹ کے لئے بیس لاکھ روپئے میں سے آٹھ لاکھ کی سبسڈی کی رعایت دیتی ہے۔
روایتی طریقے سے مشروم سال میں صرف ایک بار ہی کاشت کیا جا سکتا ہے تاہم سائنسی بنیادوں پر کنٹرولڈ یونٹ میں مشروم کو ایک سال میں چار مرتبہ اگایا جا سکتا ہے۔ محکمہ زراعت کے مشروم ڈیولپمنٹ آفیسر ڈاکٹر شبیر الرحمان نے بتایا کہ کنٹرولڈ یونٹ کی مدد سے مشروم کی پیداروا میں چار گنا اضافہ ہوگا جس سے کاشتکار کا منافع بھی کئی گنا بڑھے گا۔ لیکن نوجوانوں میں مشروم کی مارکیٹنگ اور یونٹ کو تعینات کرنے میں روپئے خرچ کرنے کے متعلق خدشات ہیں۔ تاہم "کشمیر کے ’’مشروم مین‘‘ کے نام سے مقبول گوہر علی جیسے کامیاب کاشتکار مشعل راہ بن سکتے ہیں۔
گوہر علی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ سال 2007 سے مشروم کی کاشت کاری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی ان تھک محنت اور محکمہ زراعت کی وساطت سے وہ بے روزگار نوجوان سے روزگار فراہم کرنے والے مشروم تاجر بن گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مشروم کی کاشت:سرحدی علاقوں میں روزگار کی نئی امید