سرینگر: جموں و کشمیر میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران عسکریت پسندی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین عسکری واقعہ 24 اکتوبر کی شام گلمرگ علاقے میں پیش آیا۔ حملہ میں عسکریت پسندوں نے بارہمولہ ضلع کے سیاحتی مقام گلمرگ کے قریب ایک فوجی گاڑی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں دو فوجی اور دو شہری ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے، جنہیں قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
حکام کے مطابق اس حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے نزدیکی علاقوں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، جس کے باعث گلمرگ میں سیاحتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں اور راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس حملے سے محض چند گھنٹے قبل ہی ضلع پلوامہ کے ترال علاقے میں ایک مزدور کو پر اسرار طور پر زخمی حالت پر میں پایا گیا اور رپورٹس کے مطابق غیر ریاستی باشندے پر عسکریت پسندوں نے حملہ کرکے اسے زخمی کر دیا۔
حملوں کا یہ تازہ سلسلہ 9 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا، جب ایک ٹیریٹوریل آرمی کے فوجی - ہلال احمد بٹ - کی گولیوں سے چھلنی لاش اننت ناگ ضلع میں ملی۔ اس کے بعد 18 اکتوبر کو شوپیاں میں ریاست بہار کے ایک مزدور کو ہلاک کر دیا گیا اور 20 اکتوبر کو گاندربل میں زیڈ موڑ ٹنل کے تعمیراتی مقام پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں چھ غیر مقامی مزدور اور ایک مقامی ڈاکٹر ہلاک ہوئے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق، ان حملوں کا مقصد خطے میں عدم استحکام پھیلانا ہے۔ شمالی کشمیر میں موجود ایک فوجی افسر نے بتایا کہ ’’ہم خاص طور پر ایل او سی کے قریب سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، جہاں دراندازی کی کوششوں کا امکان ہے۔‘‘ رواں سال کے آغاز میں بھی عسکریت پسندی میں تیزی آئی تھی، جب جولائی میں پانچ فوجی کٹھوعہ ضلع میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح راجوری میں ایک ولیج ڈیفنس کمیٹی کے رکن کے گھر پر حملے میں بھی طویل مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ جموں کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2021 سے اب تک فوج پر 15 بڑے حملے ہوئے، جن میں 53 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ستمبر 2023 کے بعد سے 7 افسران بھی ان حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلمرگ حملہ: دو فوجی، دو پورٹرز ہلاک، علاقے میں سرچ آپریشن