ETV Bharat / jammu-and-kashmir

سندھ طاس معاہدہ پر عمر عبداللہ کا بیان بھاجپا کے موقف کی تائید: محبوبہ مفتی

’’بھاجپا کا موقف اختیار نہ کریں۔‘‘ محبوبہ مفتی کا عمر عبداللہ کے سندھ طاس معاہدے پر دئے گئے بیان پر رد عمل۔

ا
عمر عبداللہ (دائیں)، محبوبہ مفتی (فائل فوٹوز)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : 21 hours ago

میر فرحت
سرینگر: انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان طے شدہ مسائل کو اس طرح اٹھانا نہیں چاہیے جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کرتی ہے۔‘‘

محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں معقول بات کرنی چاہیے اور ان مسائل کو ہرگز نہیں چھیڑنا چاہیے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کو بڑھائیں۔ اگر ہم ان طے شدہ معاملات کو اٹھاتے ہیں، تو (اس کا مطلب ہے کہ) ہم بی جے پی کی لائن پر چل رہے ہیں۔‘‘ پیر کو نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں، عمر عبداللہ نے سندھ آبی معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) کی ایسی شقوں پر بات کی جو جموں و کشمیر کو مکمل ہائیڈرو پاور پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے سے (ریاستی حکومت کو) روکتی ہیں اور صرف ’رن آف دی ریور‘ پروجیکٹس کی اجازت دیتی ہیں۔

عمر عبداللہ نے کہا: ’’سردیوں کے سخت موسم میں جب بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے تو جموں و کشمیر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست (جموں کشمیر) کو دیگر ریاستوں سے بجلی درآمد کرنا پڑتی ہے جس کا منفی اثر اس کی معیشت پر پڑتا ہے۔‘‘ محبوبہ نے نیشنل کانفرنس کی قیادت پر الزام عائد کیا کہ اس نے نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی NHPC) کو آٹھ پاور پروجیکٹس بیچ دیے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جو بجلی ہم پیدا کرتے ہیں وہ ہماری ہی ہے؟ شیخ عبداللہ نے بطور وزیر اعلیٰ سلار پاور پروجیکٹ (مرکزی حکومت کو) دیا، پھر فاروق عبداللہ نے این ایچ پی سی کو سات دیگر پاور پروجیکٹس دے دیے۔‘‘

محبوبہ نے کہا کہ حکومت کو کم از کم دو پاور پروجیکٹس کی واپسی یا ان کے لیے معاوضے کے لیے مرکزی حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر واحد ایسی ریاست ہے جو ہائیڈرو الیکٹریسٹی پیدا کرنے کے باوجود اندھیرے میں ہے، جب کہ بی جے پی ہر ریاست میں مفت بجلی یونٹس کا وعدہ کرتی ہے، پھر بھی ہم اندھیرے میں ہیں۔ حکومت کو رنگا راجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاور پروجیکٹس کی واپسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

محبوبہ مفتی نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ (کشیدگی) جموں و کشمیر کے عوام کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’انڈس واٹر ٹریٹی (Indus Water Treaty) میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے جموں و کشمیر کے عوام کو قیمت چکانی پڑے گی۔ بی جے پی کی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان طے شدہ معاملات کو اٹھانے کے بجائے ہمیں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ جموں و کشمیر کے عوام پر بھاری پڑتا ہے۔‘‘

اسی دوران، حزب اختلاف کے رکن اسمبلی، ایم ایل اے ہندوارہ سجاد لون نے بھی عمر عبداللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان ’’دائیں بازو کی دقیانوسی گفتگو‘‘ کے مترادف ہے۔ لون نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’مرکزی حکومت کے لیے تنقید کا نشانہ بننے والی انڈس واٹر ٹریٹی کی مخالفت کرنا دائیں بازو کا دقیانوسی بیان ہے۔ اور ایک حالیہ منتخب شدہ وزیر اعلیٰ مرکز میں حکمران جماعت کو خوش کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پانے والا ایک معاہدہ ہے، جو جموں و کشمیر کے چھ سرحدی دریاؤں کے پانی کے استعمال پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلے کا نظام وضع کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ، ماہرین کا وفد کشتواڑ پہنچا - Indus Water Treaty

میر فرحت
سرینگر: انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ’’بھارت اور پاکستان کے درمیان طے شدہ مسائل کو اس طرح اٹھانا نہیں چاہیے جیسے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کرتی ہے۔‘‘

محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں معقول بات کرنی چاہیے اور ان مسائل کو ہرگز نہیں چھیڑنا چاہیے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کو بڑھائیں۔ اگر ہم ان طے شدہ معاملات کو اٹھاتے ہیں، تو (اس کا مطلب ہے کہ) ہم بی جے پی کی لائن پر چل رہے ہیں۔‘‘ پیر کو نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں، عمر عبداللہ نے سندھ آبی معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) کی ایسی شقوں پر بات کی جو جموں و کشمیر کو مکمل ہائیڈرو پاور پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے سے (ریاستی حکومت کو) روکتی ہیں اور صرف ’رن آف دی ریور‘ پروجیکٹس کی اجازت دیتی ہیں۔

عمر عبداللہ نے کہا: ’’سردیوں کے سخت موسم میں جب بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے تو جموں و کشمیر کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست (جموں کشمیر) کو دیگر ریاستوں سے بجلی درآمد کرنا پڑتی ہے جس کا منفی اثر اس کی معیشت پر پڑتا ہے۔‘‘ محبوبہ نے نیشنل کانفرنس کی قیادت پر الزام عائد کیا کہ اس نے نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (این ایچ پی سی NHPC) کو آٹھ پاور پروجیکٹس بیچ دیے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جو بجلی ہم پیدا کرتے ہیں وہ ہماری ہی ہے؟ شیخ عبداللہ نے بطور وزیر اعلیٰ سلار پاور پروجیکٹ (مرکزی حکومت کو) دیا، پھر فاروق عبداللہ نے این ایچ پی سی کو سات دیگر پاور پروجیکٹس دے دیے۔‘‘

محبوبہ نے کہا کہ حکومت کو کم از کم دو پاور پروجیکٹس کی واپسی یا ان کے لیے معاوضے کے لیے مرکزی حکومت سے بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جموں و کشمیر واحد ایسی ریاست ہے جو ہائیڈرو الیکٹریسٹی پیدا کرنے کے باوجود اندھیرے میں ہے، جب کہ بی جے پی ہر ریاست میں مفت بجلی یونٹس کا وعدہ کرتی ہے، پھر بھی ہم اندھیرے میں ہیں۔ حکومت کو رنگا راجن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاور پروجیکٹس کی واپسی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

محبوبہ مفتی نے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ (کشیدگی) جموں و کشمیر کے عوام کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ ’’انڈس واٹر ٹریٹی (Indus Water Treaty) میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے جموں و کشمیر کے عوام کو قیمت چکانی پڑے گی۔ بی جے پی کی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان طے شدہ معاملات کو اٹھانے کے بجائے ہمیں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ جموں و کشمیر کے عوام پر بھاری پڑتا ہے۔‘‘

اسی دوران، حزب اختلاف کے رکن اسمبلی، ایم ایل اے ہندوارہ سجاد لون نے بھی عمر عبداللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان ’’دائیں بازو کی دقیانوسی گفتگو‘‘ کے مترادف ہے۔ لون نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’مرکزی حکومت کے لیے تنقید کا نشانہ بننے والی انڈس واٹر ٹریٹی کی مخالفت کرنا دائیں بازو کا دقیانوسی بیان ہے۔ اور ایک حالیہ منتخب شدہ وزیر اعلیٰ مرکز میں حکمران جماعت کو خوش کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پانے والا ایک معاہدہ ہے، جو جموں و کشمیر کے چھ سرحدی دریاؤں کے پانی کے استعمال پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلے کا نظام وضع کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ، ماہرین کا وفد کشتواڑ پہنچا - Indus Water Treaty

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.