سرینگر( جموں و کشمیر) : جس طرح ایک مصور اپنی تصویروں اور ایک قلم کار اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے، اسی طرح ایک مجسمہ ساز مجسمے بنا کر اپنے احساسات اور خیالات لوگوں تک پینچانے کی کوشش کرتا ہے۔
یوں تو وادی کشمیر میں مجسمہ سازی کا فن دیگر شعبہ جات کی طرح ابھی اتنا فروغ نہیں پاسکا۔ اس فن میں دلچسپی رکھنے والے ایسے نوجوانوں خاص کر خواتین کی قلیل تعداد ہے، جو کہ مجسمہ سازی کو بطور پیشہ کے طور اختیار کر رہے ہیں، تاہم صبرین کو شمار ان ہی قلیل خواتین مجسمہ سازوں میں ہوتا ہے جس نے اس فن کو مشغلے کے طور نہیں بلکہ پیشہ کے طور اختیار کیا ہے۔
ایسے میں صبرینہ کشمیر کی پہلی خاتون مجسمہ ساز ہے جس نے اس فن کو باضابطہ پیشے کے طور اختیار کیا اور یہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ میوزک اینڈ فائن آرٹ میں باضابطہ طور تربیت حاصل کررہی ہے۔
شہر سرینگر کے مضافاتی علاقے گلاب باغ کی رہنے والی 23 سالہ صبرینہ فردوس بچپن میں مٹی کے ساتھ کھیلنے اور مٹی کی الگ الگ شکلیں بنانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ایسے میں عمر بڑھنے کے ساتھ اس کا یہ شوق پروان چڑھنے لگا، جس کے بعد صبرینہ نے مجسمہ سازی کو پیشے کے طور اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
پہلے پہل اگرچہ صبرینہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مجسمہ سازی میں بھی دیگر شعبہ جات کی طرح باضابطہ طور تربیت اور ڈگری حاصل کی جاتی ہے، لیکن بارہویں جماعت کے بعد اس فن سے متعلق مکمل جانکاری حاصل کرکے اس نے مجسمہ ساز میں ہی آگے جانے کا فیصلہ کیا اور آج یہ سنئیر سکپچر آرٹسٹ کے طور اپنی پہنچان بنا چکی ہے۔
اس باصلاحیت خاتون آرٹسٹ نے ایسے کئی خوبصورت اور حوبحو مجسمے تیار کئے ہیں کہ ہر کوئی دیکھ کر دھنگ رہ جاتا ہے اور ان کے بنائے ہوئے مجسموں میں کوئی نہ کوئی پیغام چھپا ہوتا ہے۔
سماجی معاملات و مسائل، ماحولیات اور بدلے رہی طرز زندگی پر یہ خاص کر اپنے جذبات اور خیالات مجسمے بنا کر سامنے لاتی ہے۔صبرینہ پی او پی کے علاوہ دیگر مواد کو استعمال میں لاکر مجسمے تیار کرتی ہے۔
صبرینہ کہتی ہیں کہ آرٹ کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو اس کی شروعات سکیچنگ سے ہی ہوتی ہے۔ایسے میں کسی بھی طرح کا مجسمہ تیار کرنے سے قبل اس شکل کو کاغذ پر اترارنا بے حد ضروری ہے، تب جاکے ایک بہترین مجسمہ موجود میں آسکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سکیچنگ کے بعد ایک کمپوزیشن تیار کرکے مجسمہ پر کام شروع کیا جاتا ہے۔
صبرینہ کو مجسمہ سازی کو پیشے طور اختیار کرنے میں اپنے گھر والوں نے برابر تعاون تو دیا لیکن انہیں لوگوں کی تنقید کا سامنا پڑا ،مختلف القابات کے علاوہ لوگوں کے تانے بھی سننے پڑے۔تاہم صبرینہ فردوس ہمت اور حوصلے کا دامن تھامتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور آج کی تاریخ میں وہیں لوگ ان کے فن اور کام کی ستائش کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: مسلم خاندان تین نسلوں سے راون کا مجسمہ تیار کر رہا ہے
خاتوں مجسمہ ساز کا کہنا ہے کہ اس فن کو آگے لیجانے کے لیے سرکاری سطح پر کام کرنے کی بےحد ضرورت ہے۔ورکشاپس کے ساتھ ساتھ منعقد کی جانی والی نمائشوں میں بھی مجسمہ سازے کے فن سے وابستہ نوجوانوں کو مدعو کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرسکے۔ایسے میں انہیں نہ صرف اپنا کام دکھانے کو کام موقعہ ملے گا بلکہ دیگر نوجوان بھی مجسمہ سازی کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔