سرینگر (جموں کشمیر) : سرینگر پارلیمانی نشست میں نیشنل کانفرنس (این سی)، پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی (پی ڈی پی) کے جانے جانے امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ وہیں کچھ غیر معروف امیدواروں نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں جو محض شوقیہ یا خبروں میں رہنے کے لئے الیکشن لڑتے ہیں۔ ان امیدواروں میں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے وسیم حسن جیسے نوجوان بھی ہیں جو انتخابی میدان میں آغا روح اللہ مہدی اور وحید پرہ کے مقابلے کھڑے ہوئے ہیں۔
27 برس کے وسیم حسن نے آخر کیوں انتخابی میدان میں قدم رکھا؟ اس کے جواب میں وسیم حسن نے دعویٰ کیا کہ ’’یہاں کی روایتی سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے انہیں یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ ہم جیسے غریب نوجوانوں کے لیے یہ سیاسی جماعتیں کچھ نہیں کر پاتیں۔‘‘ وسیم کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت بے روزگاری عروج پر ہے اور اسی کے خاتمے کے لیے وہ انتخابی سیاست میں قدم رکھ رہے ہیں۔
سرینگر کے منور آباد کے رہنے والے فیاض احمد ایک تاجر ہے اور بھیم راؤ امبیدر کی سیاسی زندگی سے متاثر ہوکر انہوں نے انتخابی میدان میں قدم رکھا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے فیاض احمد نے دعویٰ کیا کہ وہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور بی جے پی کی روایتی سیاست کے خلاف انتخابی میدان میں آئے ہے۔
ان امیدواروں میں سب سے دلچسپ امیدوار جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے سمیر احمد پرے ہے۔ سمیر احمد کے کاغذات نامزدگی اننت ناگ میں رد ہوئے تھے، تاہم انہوں نے ہار نہ مانی اور سرینگر سے قسمت آزمانے کی کوشش کی تاہم یہاں بھی انکی نامزدگی رد ہوئی۔ سمیر احمد کا کہنا تھا کہ وہ شہرت حاصل کرنے کے مقصد سے سرینگر سے انتخابات لڑنا چاہتے تھے۔
پارلیمانی انتخابات کی مہم سازی میں بڑی سیاسی جماعتوں پر ہی نظریں مرکوز ہوتی ہیں۔ لیکن ان غیر معروف امیدواروں کی مہم کا کوئی اتہ پتہ بھی نہیں ہوتا ہے نہ عوام کو خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سرینگر پارلیمانی نشست کے لیے 13مئی پیر کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں پی ڈی پی، این سی، اپنی پارٹی، ڈی پی اے پی اور ایک درجن سے زائد آزاد امیدواروں سمیت کل 24افراد اپنی سیاسی قسمت آزما رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لوک سبھا انتخابات 2024: کشمیر میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات - Security Beefed up in Kashmir