سرینگر (جموں کشمیر) : بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، کشمیر میں واحد سیاسی جماعت تھی جو اگست 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد خاصی سرگرم رہی۔ بی جے پی کے پارٹی دفتر پر روزانہ جشن کا ماحول ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج لوک سبھا انتخابات کی سرگرمیوں کے بیچ ان کے دفتر سنسان اور ویران اور کارکن مایوس اور نڈھال ہیں۔
بی جے پی نے کشمیر کی تین پارلیمانی سیٹوں پر انتخابی مقابلے میں جانے سے قبل ہی ہاتھ کھڑے کئے۔ جس کے سبب کشمیر میں اس کی انتخابی سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ اس جماعت کے لیڈران جموں سے کشمیر کا رخ کرتے نظر آرہے ہیں تاکہ کارکنوں کو پارٹی کے ساتھ جوڑ کر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں بند کمروں میں میٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں۔
کارکنان کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کو وادی کے انتخابی میدان میں دیکھنا چاہتے تھے اور الیکشن کی سرگرمیوں میں مصروف رہنا چاہتے تھے۔ لیکن پارٹی کی قیادت نے انکو مایوس کر دیا۔ یہ کارکنان ان سیاسی مخالفین کی ریلیاں دیکھنے پر مجبور ہیں جن کے خلاف یہ گزشتہ پانچ برسوں سے نعرہ بازی میں سرگرم عمل تھے، اور ان کی نکتہ چینی کرتے نہیں تھکتے تھے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر میں الطاف بخاری کی اپنی پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کو حمایت کرنے کے اشارے دئے ہیں۔ لیکن وادی کی سیاسی بساط پر اس جماعت کے ووٹ انتہائی کم ہیں اور یہ کہ انکی حمایت سے کوئی امیدوار کامیاب بھی نہیں ہو پائے گا۔ کشمیر کی تین پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات نہ لڑنے کے فیصلے پر بی جے پی کے لیڈران کے پاس کوئی ٹھوس جواب بھی نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق کشمیر کے سیاسی میدان میں وہی جماعتیں اپنے گھوڑے دوڑا سکیں گیں جن پر ووٹر اپنا اعتماد کر سکیں نہ کہ وہ جماعت جو عوام کش فیصلے کرے اور پھر ووٹ کی آس بھی لگائے۔
یہ بھی پڑھیں: بی جے پی کشمیر میں ’بی‘ اور ’سی‘ ٹیموں کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے: عمر عبداللہ - BJP B and C Teams