سرینگر: جموں و کشمیر کے سرینگر کی پارلیمانی نشست پر انتخابات شروع ہونے سے ایک دن پہلے بڑی سیاسی جماعتوں نے پولیس انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کے کارکنوں کو ہراساں اور گرفتار کیا جارہا ہے تاکہ کسی طرض سے یہ لوگ انتخاب کا بائیکاٹ کر دیں یا پھر یہاں پر کم سے کم ووٹنگ کی شرح درج کی جائے۔
نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور اپنی پارٹی نے پولیس پر سرینگر پارلیمانی سیٹ پر ان کے کارکنوں کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کا الزام لگایا ہے۔
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا کو ایک خط لکھ کر انتخابی دھاندلی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے فوری اور فیصلہ کن کارروائی کی درخواست کی ہے۔
محبوبہ مفتی نے اپنے خط میں لکھا کہ "یہ میری توجہ میں آیا ہے کہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ریاستی انتظامیہ بے شرمی سے ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہے جس کا مقصد ووٹروں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کو ڈرانا ہے۔ میں پلوامہ اور شوپیاں اضلاع میں سکیورٹی ایجنسیوں کے چھاپے مارنے اور پی ڈی پی کارکنوں کو ہراساں کرنے کی رپورٹوں سے بہت پریشان ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر عوامی ریلیوں کو منظم کرنے اور ووٹر ٹرن آؤٹ کی حوصلہ افزائی کرنے کی ان کی کوششوں کی سزا کے طور پر متعدد پارٹی ممبران اور کارکنوں کو بغیر جواز کے من مانی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ صورتحال اس حد تک بڑھ گئی ہے جہاں 13 مئی کو ہونے والے انتخابات کے لیے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ خوف کا ماحول پیدا کر رہی ہے۔"
جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے بھی الزام لگایا کہ ان کی پارٹی کے کارکنوں کو انتخابات سے قبل گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بخاری نے این سی اور پی ڈی پی پر بھی الزام لگایا کہ ان کے کارکنوں کو گرفتار کرنے میں انہی دونوں پارٹیوں کا ہاتھ ہے۔
بخاری نے سری نگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ "میری پارٹی کے کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی پی اور این سی، جنہوں نے پہلے ریاست پر حکومت کی ہے، انتظامیہ میں ان کے ایسے افسران ہیں جن کے کہنے پر وہ میرے کارکنوں کو گرفتار کر رہے ہیں اور ہراساں کر رہے ہیں۔"
نیشنل کانفرنس کے امیدواروں نے بھی ان مبینہ حراستوں کے بارے میں چیف الیکشن کمیشن کو مطلع کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے امیدوار آغا روح اللہ مہدی نے دعویٰ کیا کہ سری نگر سیٹ پر ووٹنگ سے قبل پولس نے این سی کارکنوں کو حراست میں لیا ہے۔
روح اللہ نے ایک پر لکھا کہ"ہمارے کارکنوں کو کل سے پولیس نے اٹھایا ہے۔مجھے ایک سینئر ساتھی اے آر راتھر صاحب کا فون آیا جس نے مجھے چرارشریف سے ہمارے کارکنوں کی گرفتاریوں کے بارے میں باخبر کیا۔ خانصاحب اور چڈورہ کے ساتھیوں سے بھی اسی طرح کی کالیں موصول ہوئی ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن براہ کرم ان گرفتاریوں کی وضاحت کرنے کی پرواہ کرے گا؟ میں اپنے کارکنوں اور پی ڈی پی کے کارکنوں کی بھی فوری رہائی چاہتا ہوں اگر ان کی گرفتاریوں کی اطلاعات بھی درست ہیں۔"
انتخابات میں این سی کے سیاسی مخالف پی ڈی پی کے وحید پرا نے بھی الزام لگایا کہ "پی ڈی پی کے علاقوں میں انتخابی بائیکاٹ نافذ کرائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ وہاں پارٹی کارکنوں کو حراست میں لے کر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
وحید پرا نے وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ٹیگ کرتے ہوئےایکس پر لکھا۔ "پی ڈی پی کے علاقوں میں انتخابی بائیکاٹ کے نفاذ کے لیے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کرنا اور چھاپے مارنا دراصل قومی مفادات سے متصادم ہے اور اعتماد کے شدید خسارے کو ہوا دیتا ہے۔ ایسی کارروائیوں کے ذمہ دار بھارتی مفادات کے ساتھ غداری کر رہے ہیں اور کشمیری نوجوانوں کی امیدوں کو ختم کر رہے ہیں۔ ہمیں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے روکنا 1987 کی ایک سنگین بازگشت ہے، جو خود جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔"
ایکس پر ایک اور پوسٹ میں پرا نے الزام لگایا کہ اے ڈی جی پی وجے کمار مبینہ طور پر افسران کو ووٹنگ کو کم سے کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ماضی میں کشمیر نے علیحدگی پسندوں کے کہنے پر بائیکاٹ کا تجربہ کیا ہے۔ آج ہم اسی طرح کے منظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اے ڈی جی پی رینک کے ایک آئی پی ایس افسر مسٹر وجے کمار، مبینہ طور پر اہلکاروں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے کارکنوں کو حراست میں لے کر، ہراساں کر کے ووٹر ٹرن آؤٹ کو کم کریں۔
پرا نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے متعدد ہینڈلز کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، اس طرح کی کارروائیاں بھارت کے نہیں ملک دشمن عناصر کے مفادات کی تکمیل کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) فوری طور پر اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اہلکار کو اس کی حساس پوزیشن سے ہٹائے۔
جموں کشمیر پولیس نے الزامات کو مسترد کر دیا:
سرینگر پارلیمانی سیٹ پر ووٹنگ سے قبل اپنے کارکنوں کو حراست میں لینے پر سیاسی جماعتوں کے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جموں و کشمیر نے اتوار کو کہا کہ یہ بیانات اور قیاس آرائیاں "بے بنیاد" ہیں۔ پولیس نے کہا کہ، وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے پیش نظر سیکورٹی سے متعلق قانون اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کے رہنما خطوط کو نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ، "پارٹی وابستگی سے قطع نظر خلاف ورزیوں سے متعلق کارروائیاں کی گئی ہیں جیسے کہ نقدی، منشیات، شراب کی ضبطی اور عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی سے تعلق رکھنے والے شرپسندوں اور ممکنہ مجرموں کے خلاف انسدادی کارروائیاں کی گئی ہیں۔
پولیس نے کہا کہ وہ امیدواروں اور سیاسی کارکنوں، ان کے قیام کی جگہوں، سیاسی جلسوں، روڈ شوز کو محفوظ بنانے کے لیے پرعزم ہے، چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، کیونکہ وہ انتخابات کو اہم سمجھتی ہے۔
پولیس نے کہا، "اس میں حصہ لینے والے تمام امیدوار یکساں طور پر اہمیت کے حامل ہیں اور یہ بھی کہ ہم مل کر ایک مشترکہ دشمن کا سامنا کرتے ہیں۔ پولیس پر تنقید کو ہمیشہ پیشہ ورانہ خطرہ کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ ہم قانون کے غیر جانبدارانہ نفاذ کے لیے اپنی لگن اور عزم کا اعادہ کرتے ہیں،"
واضح رہے کہ سری نگر پارلیمانی سیٹ میں شوپیاں، گاندربل، پلوامہ، سری نگر اور بڈگام کے پانچ اضلاع شامل ہیں، جس میں 18 اسمبلی حلقے ہیں اور 17.47 لاکھ ووٹرز 13 مئی کو ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ پولنگ کے پرامن انعقاد کے لیے انتظامیہ نے سخت حفاظتی انتظامات کیے ہیں، پولنگ صبح 6 بجے شروع ہو کر شام 7 بجے تک اختتام پذیر ہو گی۔