سرینگر (جموں و کشمیر): پانچ سال سے بھی زائد عرصہ تک سرینگر سنٹرل جیل سمیت بیرون کشمیر مختلف جیلوں میں قید رہے کشمیر کے جواں سالہ صحافی آصف سلطان بالآخر جمعرات کو سرینگر کے بٹہ مالو علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پہنچے۔ ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے 11 دسمبر 2023 کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت آصف کی نظر بندی کے حکم کو منسوخ کیا تاہم ہائی کورٹ آرڈر کے 78 دن بعد ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔
اپنے گھر سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور ریاست اترپردیش کے امبیڈکر نگر جیل حکام نے ہائی کورٹ احکامات کے باوجود آصف کو رہا نہیں کیا بلکہ اڑھائی ماہ تک مجسٹریٹ سرینگر اور محکمہ داخلہ سے کلیئرنس لیٹر کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی رہائی ٹالتے رہے۔ تاہم آصف کے اہل خانہ کی جانب سے دونوں کلیئرنس لیٹر جیل حکام کے سپرد کیے جانے کے بعد بالآخر وہ 2,012دنوں کی سخت ترین قید کے بعد رہا ہوئے۔
آصف سلطان کی قید 27 اگست 2018 کو اُس وقت عمل میں لائی گئی جب اسے کالعدم عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کو لاجسٹک مدد فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی طور پر آصف کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، بعد میں اس کے خلاف پی ایس اے کے تحت اضافی الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اپریل 2022 میں ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کیس میں آصف سلطان کو کسی بھی عسکریت پسند گروپ سے منسلک ہونے کے ثبوت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ضمانت دے دی۔ تاہم انہیں جیل سے رہا نہیں کیا گیا بلکہ کورٹ کے اس حکمنامہ کے صرف چار دن بعد ہی پی ایس اے PSAکے تحت حراست میں لے لیا گیا۔
آصف سلطان کے اہل خانہ ثابت قدمی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور آصف کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں بے باک صحافتی کام کی وجہ سے عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ آصف کے اہل خانہ نے ’’دی رائز آف برہان‘‘ کے عنوان سے شائع کی گئی ایک اسٹوری کی طرف اشارہ کیا جو جولائی 2018 میں کشمیر نریٹر نامی ایک مقامی جریدے شائع ہوئی تھی، آصف سلطان کشمیر نریٹر میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر اور رپورٹر اپنی صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس رپورٹ آصف نے حزب المجاہدین کے پوسٹر بوائے کے نام سے مشہور عسکری کمانڈر برہان وانی کے بارے میں عسکریت پسند گروپ کے اوور گراؤنڈ ورکرز OGWsکے انٹرویوز کے حوالہ سے اہم تفاصیل بیان کی گئی ہیں۔
کشمیری صحافی آصف سلطان کا نام 12 اگست 2018 کو بٹہ مالو، سرینگر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ہوئی فائرنگ سے متعلق ایک ایف آئی آر میں سامنے آیا۔ آصف کے وکیل عادل عبداللہ پنڈت کی جانب سے آصف کی تصادم/انکاؤنٹر کے مقام پر موجودگی اور عسکریت پسندوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے ملوث ہونے کے بارے میں سخت تردید کیے جانے کے باوجود اسے 27 اگست کو دوران شب چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ سلاخوں کے پیچھے رہنے کے دوران آصف سلطان کی صحافتی سالمیت کے لیے غیر متزلزل عزم کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی، انہیں 2019 میں نیشنل پریس کلب آف امریکہ کی طرف سے باوقار سالانہ ’’جان اوبچون پریس فریڈم ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
مزید پڑھیں: کشمیری صحافی فہد شاہ جیل سے رہا
آصف سلطان کا معاملہ کشمیری صحافیوں سے جڑا تنہا کیس نہیں ہے، بلکہ فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو 2017 میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی جانب سے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کامران پر پتھراؤ کے واقعات میں ملوث ہونے اور نوجوانوں کے گروپوں کو حفاظتی اہلکاروں کے خلاف منظم کرنے کا بھی الزام تھا۔ کامران یوسف کو مارچ 2018 میں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ ایک اور کشمیری جواں سالہ صحافی فہد شاہ نے گزشتہ سال نومبر میں رہا ہونے سے قبل اسی طرح کے حالات میں 658 دن حراست میں گزارے۔ فروری 2022 میں شاہ کو یو اے پی اے اور پی ایس اے کی کئی دفعات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔