سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر اینڈ لداخ ہائی کورٹ نے اُس وقت بجلی کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے برقی رو کی فراہم کے حوالہ سے ہدایات جاری کیں، جب کورٹ روم میں بجلی گُل ہوئی اور حیران کن طور پر ہائی کورٹ کا جنریٹر بھی غیر فعال تھا۔ جسٹس اتل سریدھرن اور جسٹس موکش کھجوریا کاظمی پر مشتمل بنچ نے بجلی کی فراہمی کے حوالہ سے جموں و کشمیر انتظامیہ کو جاری کردہ ایک صفحے کے آرڈر میں کورٹ روم کے سنگین حالات کے بارے میں آگاہ کیا، کورٹ آرڈر میں کہا گیا: ’’جنریٹر بھی کام نہیں کر رہا ہے، بجلی غائب ہے۔ ایئر ہیٹنگ یونٹ (AHU) بھی کام نہیں کر رہا ہے۔‘‘
معلوم ہوا ہے کہ بجلی صبح 9:45 بجے غائب ہوئی اور ساڑھے گیارہ بجے تک، جب حکم نامہ جاری کیا گیا، صورتحال کو درست نہیں کیا گیا تھا۔ بجلی کی عدم دستیاب کے سبب کورٹ روم کی کارروائی میں خلل واقع ہوئی۔ کورٹ کی ڈویژن ببینچ نے ان حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور حکم نامہ میں بجلی کی فراہمی کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور مرکزی زیر انتظام علاقے کے چیف سیکریٹری سے فوری مداخلت کا بھی مطالبہ کیا۔ حکم نامے میں کہا گیا: ’’عدالت، مرکزی زیر انتظام علاقے کے چیف سیکریٹری سے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے ضروری احکامات جاری کرنے کی درخواست کرتی ہے۔‘‘ ہائی کورٹ نے بغیر خلل کے بجلی سپلائی فراہم کرنے کے لیے ایک وقف شدہ ترسیلی لائن قائم کرنے اور مستقبل میں بجلی کی خرابی کی صورت میں پورے ہائی کورٹ، بشمول ایئر ہیٹنگ یونٹ کو بجلی فراہم کرنے کے حامل ایک جنریٹرز کی تنصیب کو یقینی بنانے کی سفارش کی ہے۔ کورت کی جانب سے جاری کردہ حکمنامہ کی ایک کاپی چیف سیکریٹری کو بھیج دی گئی ہے اور بنچ 21 فروری 2024 کو اس معاملے پر دوبارہ غور کرے گا۔
مزید پڑھیں: بجلی کٹوتی سے کارخانہ داروں کو نقصان
بجلی کا بحران صرف ہائی کورٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ کشمیر ان دنوں شدید بجلی کے بحران سے دوچار ہے۔ صورتحال اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن (KPDCL) نے ضلع تقریاتی کمشنروں پر زور دیا ہے کہ وہ بجلی کے واجبات کی ادائیگی تک سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روک دیں۔ لوڈ شیڈنگ اور موسم سے متعلق مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود کشمیر میں بجلی کی بندش ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔