ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو شہداء کی قبروں پر جانے سے روک دیا - JK Police stopped Apni Party Leader - JK POLICE STOPPED APNI PARTY LEADER

جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو نقشبند صاحب میں شہداء کے قبرستان جانے سے روک دیا۔ پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری کی قیادت میں وفد 13 جولائی 1931 کے شہداء کو اپنا خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گیا تھا مگر پولیس نے ان کو جانے نہیں دیا۔ ان لوگوں نے شیخ باغ دفتر کے باہر سڑک پر ہی فاتحہ خوانی کی۔

جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں
جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو روکا (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 13, 2024, 10:48 AM IST

Updated : Jul 13, 2024, 2:02 PM IST

جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں (ETV Bharat)

سری نگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر پولیس نے ہفتہ کے دن اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو سری نگر کے نقشبند صاحب میں شہداء کے قبرستان جانے سے روک دیا۔ یہ رہنما 13 جولائی 1931 کے شہداء کو اپنا خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گئے تھے مگر پولیس نے ان کو جانے نہیں دیا۔

پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری کی قیادت میں وفد کو سٹی سینٹر میں پارٹی کے شیخ باغ دفتر سے نکلتے وقت پولیس نے روک لیا۔ قبرستان پہنچنے سے روکنے کے باوجود قائدین نے شیخ باغ دفتر کے باہر سڑک پر ہی فاتحہ خوانی کی۔ جمعہ کو سید محمد الطاف بخاری نے 13 جولائی 1931 کی تاریخی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔

بخاری نے کل ایک بیان میں کہا کہ "یہ دن ہماری تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ان لاتعداد آباؤ اجداد کی قربانی کی علامت ہے جنہوں نے 1931 میں اس دن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

"اگست 2019 تک، 13 جولائی کو سرکاری تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا، جس کی یاد قبروں پر پھول چڑھا کر اور دعائیں مانگ کر کی جاتی تھیں۔ تاہم، مرکزی حکومت نے جموں ڈویژن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اسے ریاستی تعطیلات کی فہرست سے ہٹا دیا۔

اس دوران اپنی پارٹی کے ترجمان منتظر محی الدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوے کہا کہ اپنی پارٹی کو 13 جولای 1931 کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے غرض سے پولیس نے مزار شہدا جانے سے روکا جو ایک غیر جمہوری عمل ہے جس کو کھبی بھی برداشت نہیں کیا جاے گاہ اور ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہے کہ جس طرح پہلے دور میں 13 جولای منایا جات تھا اسی طرح آیندہ بھی منانے دیا جائے اور اس روز کو چھٹی پہلے کی طرح دی جاے۔

13 جولائی 1931 کو سری نگر کی سینٹرل جیل کے باہر احتجاج کے دوران ریاستی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 22 غیر مسلح افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ احتجاج عبدالقادر خان کے خلاف جاری مقدمے کی وجہ سے ہوا تھا، جو سوات کے علاقے (اب پاکستان میں) سے تھے، جن پر سرینگر کی جامع مسجد میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بولنے کے بعد بغاوت اور تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

جموں و کشمیر پولیس نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں (ETV Bharat)

سری نگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر پولیس نے ہفتہ کے دن اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو سری نگر کے نقشبند صاحب میں شہداء کے قبرستان جانے سے روک دیا۔ یہ رہنما 13 جولائی 1931 کے شہداء کو اپنا خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گئے تھے مگر پولیس نے ان کو جانے نہیں دیا۔

پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری کی قیادت میں وفد کو سٹی سینٹر میں پارٹی کے شیخ باغ دفتر سے نکلتے وقت پولیس نے روک لیا۔ قبرستان پہنچنے سے روکنے کے باوجود قائدین نے شیخ باغ دفتر کے باہر سڑک پر ہی فاتحہ خوانی کی۔ جمعہ کو سید محمد الطاف بخاری نے 13 جولائی 1931 کی تاریخی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔

بخاری نے کل ایک بیان میں کہا کہ "یہ دن ہماری تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ان لاتعداد آباؤ اجداد کی قربانی کی علامت ہے جنہوں نے 1931 میں اس دن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

"اگست 2019 تک، 13 جولائی کو سرکاری تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا، جس کی یاد قبروں پر پھول چڑھا کر اور دعائیں مانگ کر کی جاتی تھیں۔ تاہم، مرکزی حکومت نے جموں ڈویژن کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اسے ریاستی تعطیلات کی فہرست سے ہٹا دیا۔

اس دوران اپنی پارٹی کے ترجمان منتظر محی الدین نے میڈیا سے بات کرتے ہوے کہا کہ اپنی پارٹی کو 13 جولای 1931 کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے غرض سے پولیس نے مزار شہدا جانے سے روکا جو ایک غیر جمہوری عمل ہے جس کو کھبی بھی برداشت نہیں کیا جاے گاہ اور ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہے کہ جس طرح پہلے دور میں 13 جولای منایا جات تھا اسی طرح آیندہ بھی منانے دیا جائے اور اس روز کو چھٹی پہلے کی طرح دی جاے۔

13 جولائی 1931 کو سری نگر کی سینٹرل جیل کے باہر احتجاج کے دوران ریاستی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 22 غیر مسلح افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ احتجاج عبدالقادر خان کے خلاف جاری مقدمے کی وجہ سے ہوا تھا، جو سوات کے علاقے (اب پاکستان میں) سے تھے، جن پر سرینگر کی جامع مسجد میں ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف بولنے کے بعد بغاوت اور تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : Jul 13, 2024, 2:02 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.