ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں و کشمیر: سری نگر سینٹرل جیل میں قیدیوں کے درمیان ہاتھا پائی، حالات قابو میں - Srinagar Central Jail Scuffle - SRINAGAR CENTRAL JAIL SCUFFLE

جموں و کشمیر کی سرینگر سینٹرل جیل میں قیدیوں کے درمیان تصادم کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ تاہم اس دوران کسی جانی نقصان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پائین شہر کے رعناواری علاقے میں قائم اس تاریخی جیل میں سینکڑوں افراد نظر بند ہیں۔

سرینگر سینٹرل جیل میں قیدیوں کے درمیان تصادم
سرینگر سینٹرل جیل میں قیدیوں کے درمیان تصادم (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Sep 4, 2024, 11:37 AM IST

Updated : Sep 4, 2024, 12:09 PM IST

سری نگر (جموں و کشمیر): سری نگر کے رعناواری علاقے میں واقع سینٹرل جیل میں منگل کی شام قیدیوں کے دو گروپوں کے درمیان جھگڑا ہوا ہے، پولیس نے اس جھگڑے کی تصدیق کی ہے لیکن کہا ہے اس میں فریقین کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ سری نگر میں حالیہ ایام کے دوران تعینات کئے گئے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز حسین میر نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کو فوری طور پر قابو میں کر لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ ہائی سکیورٹی والی جیل کی ایک بارک کے اندر پیش آیا، جس میں کئی قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ قیدیوں میں سابق عسکریت پسند یا علیحدگی پسند سیاسی کارکن اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث گرفتار افراد بھی شامل ہیں۔ قیدیوں میں سزا یافتہ اور انڈر ٹرائل شامل ہیں۔

اس جھگڑے میں کسی کو زیادہ چوٹ نہیں آئی ہے مگر اس نے جیل کے اندر معمولات کو مختصر وقفے کیلئے متاثر ضرور کیا ہے۔ حکام نے کسی اہم چوٹ یا نقصان کی اطلاع نہیں دی۔ حکام نے یہ بھی خلاصہ نہیں کیا ہے کہ جھگڑے کی اصل وجہ کیا ہے۔

یہ جھگڑا اپریل 2019 میں اسی طرح کے ایک واقعے کی یادیں تازہ کرتا ہے، جب سری نگر سینٹرل جیل کے اندر کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ اس واقعے میں، قیدیوں نے کچھ مرمت اور تزئین و آرائش کے کام کے لیے راستہ بنانے کے لیے منتقل کیے جانے پر اعتراض کیا تھا۔

سرینگر سینٹرل جیل، ایک انتہائی سیکیورٹی والی فصیل بند جیل ہے جو قلعہ ہاری پربت کی مضافات میں رعناواری سعیدہ کدل علاقے میں واقع ہے۔ اسے شخصی دور میں قائم کیا گیا ہے اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی ایک چشم دید جگہ کے طور پر اسے جانا جاتا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں اس جیل کی اہمیت ہے کیونکہ 13 جولائی 1931 کو اس جیل کے احاطے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے کم از کم 22 کشمیریوں کا قتل عام کیا تھا ۔ یہ لوگ ایک افغان شہری عبدالقدیر کی عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کیلئے جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ عبدالقدیر جو ایک انگریز سیاح کے ساتھ کشمیر آئے تھے، نے جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ حکومت کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ایک تقریر کی تھی جس پر شہر میں حکومت مخالف مطاہرے بھڑک اٹھے تھے۔ بعد میں مہاراجہ کی پولیس نے قدیر خان کو حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

گزشتہ مظاہرہ اس بات پر ہوا تھا کہ قیدیوں کو خدشہ تھا کہ انہیں کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔ قیدیوں نے ہنگامہ آرائی کی، گیس سلنڈروں کو آگ لگا دی، جس کے نتیجے میں سلنڈر پھٹ گیا۔ قیدیوں نے جیل کی املاک میں بھی توڑ پھوڑ کی، کم از کم دو بیرکوں اور جیل کی کینٹین میں آگ لگا دی۔

جموں و کشمیر کے سابق گورنر نریندر ناتھ ووہرہ نے جیل قوانین میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر کے قیدیوں کو بیرہنی ریاستوں میں منتقل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ چنانچہ جمون و کشمیر کے متعدد قیدی اسوقت باہر کی جیلوں میں بند ہیں جن میں اکثریت دلی کی تہاڑ میں نظر بند ہے۔ تہاڑ جیل میں سینئر علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک، نعیم خان اور شبیر شاہ مقید ہیں جبکہ اسی جیل میں نظر بند عوامی اتھاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے الیکشن میں حصہ لیا اور باہمولہ کی پالیمنٹ سیٹ جیت لی۔ انجینئر رشید ممبر پارلیمنٹ بننے کے باوجود ابھی تک تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ انکے وکیلوں نے انہیں سرینگر منتقل کرنے کی درخواست عدالت میں جمع کی ہے۔

سری نگر (جموں و کشمیر): سری نگر کے رعناواری علاقے میں واقع سینٹرل جیل میں منگل کی شام قیدیوں کے دو گروپوں کے درمیان جھگڑا ہوا ہے، پولیس نے اس جھگڑے کی تصدیق کی ہے لیکن کہا ہے اس میں فریقین کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ سری نگر میں حالیہ ایام کے دوران تعینات کئے گئے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس امتیاز حسین میر نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال کو فوری طور پر قابو میں کر لیا گیا ہے۔

یہ واقعہ ہائی سکیورٹی والی جیل کی ایک بارک کے اندر پیش آیا، جس میں کئی قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔ قیدیوں میں سابق عسکریت پسند یا علیحدگی پسند سیاسی کارکن اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث گرفتار افراد بھی شامل ہیں۔ قیدیوں میں سزا یافتہ اور انڈر ٹرائل شامل ہیں۔

اس جھگڑے میں کسی کو زیادہ چوٹ نہیں آئی ہے مگر اس نے جیل کے اندر معمولات کو مختصر وقفے کیلئے متاثر ضرور کیا ہے۔ حکام نے کسی اہم چوٹ یا نقصان کی اطلاع نہیں دی۔ حکام نے یہ بھی خلاصہ نہیں کیا ہے کہ جھگڑے کی اصل وجہ کیا ہے۔

یہ جھگڑا اپریل 2019 میں اسی طرح کے ایک واقعے کی یادیں تازہ کرتا ہے، جب سری نگر سینٹرل جیل کے اندر کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ اس واقعے میں، قیدیوں نے کچھ مرمت اور تزئین و آرائش کے کام کے لیے راستہ بنانے کے لیے منتقل کیے جانے پر اعتراض کیا تھا۔

سرینگر سینٹرل جیل، ایک انتہائی سیکیورٹی والی فصیل بند جیل ہے جو قلعہ ہاری پربت کی مضافات میں رعناواری سعیدہ کدل علاقے میں واقع ہے۔ اسے شخصی دور میں قائم کیا گیا ہے اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کی ایک چشم دید جگہ کے طور پر اسے جانا جاتا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں اس جیل کی اہمیت ہے کیونکہ 13 جولائی 1931 کو اس جیل کے احاطے میں مہاراجہ ہری سنگھ کی پولیس نے کم از کم 22 کشمیریوں کا قتل عام کیا تھا ۔ یہ لوگ ایک افغان شہری عبدالقدیر کی عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کیلئے جیل کے احاطے کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ عبدالقدیر جو ایک انگریز سیاح کے ساتھ کشمیر آئے تھے، نے جامع مسجد سرینگر میں مہاراجہ حکومت کے مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ایک تقریر کی تھی جس پر شہر میں حکومت مخالف مطاہرے بھڑک اٹھے تھے۔ بعد میں مہاراجہ کی پولیس نے قدیر خان کو حراست میں لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

گزشتہ مظاہرہ اس بات پر ہوا تھا کہ قیدیوں کو خدشہ تھا کہ انہیں کشمیر سے باہر کی جیلوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔ قیدیوں نے ہنگامہ آرائی کی، گیس سلنڈروں کو آگ لگا دی، جس کے نتیجے میں سلنڈر پھٹ گیا۔ قیدیوں نے جیل کی املاک میں بھی توڑ پھوڑ کی، کم از کم دو بیرکوں اور جیل کی کینٹین میں آگ لگا دی۔

جموں و کشمیر کے سابق گورنر نریندر ناتھ ووہرہ نے جیل قوانین میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر کے قیدیوں کو بیرہنی ریاستوں میں منتقل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ چنانچہ جمون و کشمیر کے متعدد قیدی اسوقت باہر کی جیلوں میں بند ہیں جن میں اکثریت دلی کی تہاڑ میں نظر بند ہے۔ تہاڑ جیل میں سینئر علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک، نعیم خان اور شبیر شاہ مقید ہیں جبکہ اسی جیل میں نظر بند عوامی اتھاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے الیکشن میں حصہ لیا اور باہمولہ کی پالیمنٹ سیٹ جیت لی۔ انجینئر رشید ممبر پارلیمنٹ بننے کے باوجود ابھی تک تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ انکے وکیلوں نے انہیں سرینگر منتقل کرنے کی درخواست عدالت میں جمع کی ہے۔

Last Updated : Sep 4, 2024, 12:09 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.