سرینگر (جموں کشمیر) : ایک جنرل کیٹیگری (اوپن میرٹ) کی امیدوار تحمینہ (نام تبدیل)، جس نے نیٹ یو جی 2024 میں 614 نمبرات حاصل کیے تھے، تاہم انہیں جموں و کشمیر کے کسی بھی سرکاری میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس نشست نہ ملنے کے سبب وادی گلپوش چھوڑ کر دوسرے مقام منتقل ہونا پڑا۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک نے معاشی طور پر کمزور طبقے (EWS) میں محض 350 نمبر اور دوسرے نے دفاعی اہلکار کے بچے کے طور پر صرف 200 نمبر حاصل کیے اور انہیں یو ٹی کے میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا۔
جموں کی طالبہ وینشکا شرما نے بتایا کہ اس نے دو مرتبہ نیٹ کا امتحان دیا، لیکن نئی ریزرویشن پالیسی کے سبب پیشہ ورانہ کالجوں میں جنرل کیٹیگری کی سیٹیں کم ہو گئیں۔ وینشکا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’جنرل کیٹیگری کے میرٹ کی سطح بہت زیادہ ہو گئی ہے، جبکہ سیٹیں کم کر دی گئی ہیں تاکہ نئی ریزرو کیٹیگریز کو شامل کیا جا سکے۔ یہ پالیسی ہمارے لیے غیر منصفانہ ہے۔‘‘
ترمیم شدہ ریزرویشن پالیسی کیا ہے؟
جموں و کشمیر کے 2004 کے ترمیم شدہ ریزرویشن ایکٹ کے تحت جموں کشمیر حکومت نے ریاست کی 30 فیصد آبادی کو مختلف کوٹوں میں تقسیم کرتے ہوئے انہیں 60 فیصد سے زائد ریزرویشن فراہم کی ہے۔ اس پالیسی میں پہاڑی بولنے والے افراد اور 15 دیگر (درجہ فہرست) ذاتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جس سے اوپن کیٹیگری کے امیدواروں کے لیے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔
شیڈول کاسٹ (SC) کو آٹھ فیصد ریزرویشن، شیڈولڈ ٹرائبز (ST) کو 20 فیصد ریزرویشن ہے، جس میں 10 فیصد گجر اور بکر وال کے لیے اور 10 فیصد پہاڑی بولنے والے افراد (PSP) کے لیے ہے۔ معاشی طور پر کمزور طبقات کو 10 فیصد ریزرویشن، بیک ورڈ ایریا (RBA) کے رہائشیوں کو 10 فیصد اور دیگر پسماندہ طبقات (OBC) بشمول 15 نئی ذاتوں کو آٹھ فیصد ریزرویشن دی گئی ہے۔ کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد کے نزدیک رہنے والے لوگوں کو چار فیصد ریزرویشن دی گئی ہے۔
اوپن میرٹ کیٹیگری میں معذور افراد کے لیے تین فیصد، دفاعی اہلکاروں کے بچوں کے لیے تین فیصد، نیم فوجی اور پولیس اہلکاروں کے بچوں کے لیے ایک فیصد اور کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے امیدواروں کے لیے دو فیصد ریزرویشن بھی شامل ہے۔
سال1992 کے کیس ’’اندرا ساہنی اینڈ ادرز بمقابلہ یونین آف انڈیا‘‘ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، جس میں ریزرویشن کی حد 50 فیصد تک مقرر کی گئی تھی، جموں و کشمیر کی لیفٹیننٹ گورنر (LG) انتظامیہ نے اس حد کو بڑھا کر 60 فیصد سے زیادہ کر دیا ہے۔
نظر ثانی کے لیے قانون سازوں نے کی آوازیں بلند
جب بھی جموں و کشمیر میں بھرتی ادارے ملازمتوں اور داخلوں کی فہرستیں جاری کرتے ہیں، لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ سال نافذ کی گئی متنازعہ ریزرویشن پالیسی پر دوبارہ بحث چھڑ جاتی ہے۔ بی جے پی کی قیادت والی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد، یہ پالیسی نافذ کی گئی تھی۔
حال ہی میں جموں کشمیر کمبائنڈ کمپیٹیٹیو ایگزامینیشن (Jammu and Kashmir Combined Competitive Examination) 2023 کے نتائج کے اعلان پر یہ مطالبات دوبارہ ابھرے ہیں۔ اس امتحان میں منتخب ہونے والے 71 امیدواروں میں سے صرف 29 کا تعلق جنرل کیٹیگری سے تھا، جبکہ 42 امیدوار مختلف ریزرو کیٹیگریز سے تعلق رکھتے تھے۔ سماجی سطح پر ریزرویشن سے متعلق مختلف آراء جموں و کشمیر اسمبلی میں بھی سنائی دیں، جہاں پہلے اجلاس کے دوران سات قانون سازوں نے اس پالیسی پر نظرثانی کا پُرزور مطالبہ کیا۔ ان میں رام بن سے تعلق رکھنے والے نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی ارجن سنگھ راجو، سی پی آئی (ایم) کے ایم وائی تاریگامی، لنگیٹ کے آزاد امیدوار ایم ایل اے شیخ خورشید، حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے سلمان ساگر اور اپوزیشن پی ڈی پی کے وحید پرہ اور رفیق نائیک شامل ہیں۔ اس مسئلے پر کسی بھی دوسرے قانون ساز نے ان کی مخالفت نہیں کی۔
پرہ نے کہا کہ ’’حکومت کو اس غیر منصفانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ یہ میرٹ کے خلاف ہے۔ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو شمولیت کا حق ہے، نہ کہ انہیں خارج کر دیا جائے۔‘‘ وہیں ساگر کا کہنا ہے کہ ’’ریزرویشن پالیسی میں خامیاں ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔‘‘
طلبہ اور کارکنان کا موقف
طلبہ اور کارکنان کے مطابق جموں و کشمیر کی نئی ریزرویشن پالیسی، جو اوپن میرٹ کیٹیگری کے نوجوانوں کو پیشہ ورانہ کالجوں میں داخلے سے محروم کرتی ہے، ان کے مواقع کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت پر بھی بوجھ بن رہی ہے۔
طلبہ کارکن ساحل پرہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے نیٹ یو جی 2024 کے امتحانات کے نتائج میں اوپن میرٹ اور ریزرو کیٹیگری کے امیدواروں کے داخلے میں نمایاں فرق ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ایک اوپن میرٹ میں منتخب خاتون امیدوار جس کی یو ٹی رینک 736 اور نیٹ رینک 67055 ہے، نے 609 نمبر حاصل کیے جبکہ معاشی طور پر کمزور طبقے (EWS) کی آخری منتخب خاتون امیدوار جس کی یو ٹی رینک 3854 اور نیٹ رینک 516235 ہے، نے 336 نمبر حاصل کیے۔ یہ 273 نمبروں کا فرق ہے۔‘‘
مرد امیدواروں کے لیے کٹ آف زیادہ ہے۔ اوپن میرٹ کیٹیگری میں آخری مرد امیدوار نے 648 نمبر حاصل کیے، اس کی یو ٹی رینک 259 اور آل انڈیا رینک 28057 تھی۔ مرد ای ڈبلیو ایس کیٹیگری میں آخری منتخب امیدوار نے نیٹ میں 404 نمبر حاصل کیے، اس کی آل انڈیا رینک 366462 اور یو ٹی رینک 3279 تھی۔
سماجی کارکن احتشام خان نے ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کے لیے سخت مہم چلاتے ہوئے اس پالیسی کو امتیازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس پر نظرثانی کے لیے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو خط لکھا ہے۔ خان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’میں نے وزیر اعلیٰ کو ایک یادداشت ارسال کی ہے اور امید ہے کہ ان کی حکومت پالیسی پر دوبارہ غور کرے گی۔‘‘ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ اگر وہ حکومت سازی کرتی ہے ہے تو ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کی جائے گی اور کسی بھی ناانصافی کو درست کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ریزرویشن پالیسی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ’ظلم‘: ایم ایل اے پلوامہ