جموں: جموں کشمیر کی تاریخ میں 26 اکتوبر 1947 کا دن ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جب جموں کشمیر کے ڈوگرہ شاہی کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو بھارتی اتحاد کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی فیصلے کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ان واقعات پر نظر ڈالنی ضروری ہے جو اُس وقت وقوع پذیر ہوئے۔
جموں و کشمیر کی تاریخ کا سفر طویل، گہرا اور رنگا رنگ ہے، جو مختلف ثقافتوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔ کشمیر کو ’کرہ ارض پر جنت‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست سیاسی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے ایک متنوع ورثے کی حامل ہے۔
جموں و کشمیر کی قدیم تاریخ
جموں و کشمیر کی تاریخ ویدک دور سے شروع ہوتی ہے اور یہ خطہ ہندو، بدھ مت اور اسلامی ثقافتوں کا سنگم رہا ہے۔ 14ویں صدی میں یہاں مسلم حکمرانی قائم ہوئی اور بعد میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ مغلوں کے بعد افغان اور پھر سکھ حکمرانوں نے اس خطے پر حکومت کی، جس کے بعد ڈوگرہ خاندان نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ (بیع نامہ امرتسر) کرکے جموں و کشمیر کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ریاست پر اپنی حکومت قائم کی۔
الحاق کی وجوہات
1947 میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کے قیام نے برصغیر کے نقشے میں بڑی تبدیلیاں کیں۔ اس وقت غیر منقسم ہندوستان (برٹش انڈیا) کی 565 ریاستوں (Princely States) کو بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا انتخاب کرنا تھا۔ جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ، جو اُس وقت ریاست جموں کشمیر کے حکمران تھے، نے ابتدا میں دونوں ملکوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہ کرنے اور آزاد رہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن یہ خواہش زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی کیونکہ حالات نے انہیں ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا۔
الحاق کب اور کیسے ہوا؟
سال 1947 میں تقسیم برصغیر (Partition) کے بعد پاکستان نے کشمیر پر قبضے کی کوشش کی اور اکتوبر میں پاکستانی قبائلی ملیشیا (قبائلی حملہ آور) نے کشمیر پر حملہ کیا۔ اس حملے سے کشمیر میں خوف و ہراس کی صورتحال پیدا ہوئی اور حالات بگڑ گئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد کی درخواست کی۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مشروط مدد فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ شرط یہ تھی کہ جموں و کشمیر بھارت کے ساتھ الحاق کرے۔ ان حالات میں مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کے دستاویزات (Instrument of Accession) پر دستخط کر دیے۔ بھارت نے اس معاہدے کے تحت جموں و کشمیر کو دفاع، خارجی امور اور مواصلات کی حفاظت کی ذمہ داری دی۔
26 اکتوبر 1947: ایک تاریخی دن
الحاق کے دستاویز پر دستخط کے بعد بھارتی فوج جموں و کشمیر میں داخل ہوئی اور (قبائلی) حملہ آوروں کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام چلا گیا، جسے پاکستان ’’آزاد کشمیر‘‘ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق اس دن سے دونوں ممالک کے مابین ایک اہم اور قومی مسئلہ بن گیا اور آج بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر ’’کشمیر‘‘ گہرا اثر رکھتا ہے۔
الحاق کے بعد کے حالات
الحاق کے بعد جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی حیثیت دی گئی۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست کو کچھ نیم خودمختاری دی گئی اور آرٹیکل 35-اے نے ریاست کے شہریوں کو خاص حقوق اور مراعات فراہم کیے۔ بھارت کی دیگر ریاستوں کے برعکس جموں کشمیر کا اپنا علیحدہ آئین اور پرچم ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم اور گورنر کے بجائے صدر ریاست کا عہدہ تھا۔ مختلف حکمرانوں کے دور میں صدر ریاست کو گورنر اور وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچایا گیا اور وقتاً فوقتاً دفعہ 370میں درجنوں ترامیم کی گئیں۔
دفعہ 370کی منسوخی
پانچ اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کو حاصل نیم خودمختاری اور آرٹیکل 370 کو نہ صرف منسوخ کر دیا بلکہ ریاست کو ریاستی درجہ سے گھٹا کر ایک وفاقی علاقہ (یونین ٹیریٹری) بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں جموں کشمیر سے لداخ کو الگ کرکے اسے بھی علیحدہ یونین ٹیریٹری بنا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بی جے پی نے کشمیر کے ساتھ کھلواڑ کرکے الحاق کو کمزور کیا ہے، محبوبہ مفتی