شملہ (ہماچل پردیش): ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے بدّی بٹوری والا پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ انکاؤٹر میں مارے گئے کسی بھی عسکریت پسند کی روح کی سلامتی کے لئے دعا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے وضاحت کی کہ جب تک اس طرح کی دعا کسی کمیونٹی یا طبقے کو عوامی انتشار پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتی، ایسا کرنے میں کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی کے لئے بھی دعا مانگی جا سکتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 16فروری 2019 میں پلوامہ میں فوجیوں پر ایک حملہ ہوا تھا اور انکاؤنٹر میں مارے گئے عسکریت پسند کے لئے دعا کی گئی تھی اور مقتول عسکریت پسند کو شہید کہنے پر ایک کشمیری نوجوان کے خلاف اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کی تھی جو بدی کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ درخواست گزار پر سوشل میڈیا فیس بک پر ملک مخالف تبصرے کرنے کا الزام تھا۔ مگر ہائی کورٹ کے جج سندیپ شرما نے درخواست گزار تحسین گل کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اس کیس سے متعلق ان کے خلاف فوجداری کارروائی کو بھی مسترد کر دیا۔
پلوامہ حملے کے عسکریت پسند کی روح کے سکون کے لیے پوسٹ کیا گیا:
یونیورسٹی کے ڈین نے بدی پولیس کو خط لکھ کر معاملے کی شکایت کی تھی اور نوجوان کو نوکری سے بھی نکال دیا تھا۔ 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بعد، یونیورسٹی میں سول انجینئرنگ کے دوسرے سال کے طالب علم تحسین نے 16 فروری کو ایک پوسٹ شیئر کی اور لکھا، 'اللہ شکور بھائی کی شہادت کو قبول کرے'۔ اس وجہ سے، ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 بی (الزامات یا بیانات کو قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں اس ایف آئی آر اور اس سے پیدا ہونے والی کارروائی کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کیا کہا:
عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے کہا کہ اگر درخواست گزار نے عسکریت پسند کی موت کے بعد عوام کو انتظامیہ یا دیگر پولیس افسران کے خلاف احتجاج درج کرنے کے لیے اکسایا ہوتا یا دوسروں سے تحریک میں شامل ہونے کی اپیل کی ہوتی، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے آئی پی سی کی دفعہ 153 (بی) کے تحت جرم کیا تھا۔ اگر درخواست گزار کے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے کیے گئے تبصروں کو مکمل طور پر پڑھا جائے تو انداذہ ہوگا کہ عسکریت پسند کی خبر سن کر ہی اس کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی درخواست کی گئی تھی۔
عدالت نے کہا کہ میت کے لیے دعا کرتے ہوئے انہوں نے سوسائٹی کے ارکان یا خاص طور پر کسی مذہب کے افراد کو گھروں سے باہر نکل کر انتظامیہ کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے پر اکسایا نہیں تھا۔ اس نے صرف مرحوم کے لیے دعا کی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ درخواست گزار نے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے ایک عسکریت پسند کی کارروائی کی تعریف کرنے کی کوشش کی، ایسا کرنا آئی پی سی کی دفعہ 153 (بی) کے تحت جرم نہیں بن سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: