جموں: نیشنل کانفرنس سپریمو فاروق عبداللہ نے پیر کو جموں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کی حالت پر مایوسی کا اظہار کیا۔ انھوں نے جموں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی پر تنقید بھی کی۔
این سی صدر نے دربار مو کی بحالی کے ذریعے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی پر بھی زور دیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے صحافیوں کو بتایا کہ، آپ کا نام نہاد سمارٹ سٹی دیکھ کر مجھے شرم آتی ہے۔ میں اسے سمارٹ سٹی نہیں سمجھتا۔ مجھے کہیں بھی کام کرنے والی لائٹ نظر نہیں آتی۔ یہ کیسی سمارٹ سٹی ہے؟
دراصل فاروق عبداللہ نے پیر کے روز رات گئے شہر کے رگھوناتھ بازار کا دورہ کیا۔ اس دوران انھوں نے جموں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کا کام انجام دینے والوں پر طنز کیا۔ انھوں نے کہا کہ، صرف اسے سمارٹ سٹی کہنے سے یہ بن نہیں جاتی۔ فاروق عبداللہ نے جمون کو صحیح معنوں میں سمارٹ سٹی بنانے کے لیے مزید اقدامات پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ علاقے کے لوگ ان کوتاہیوں کو خاموشی سے برداشت کر رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس سپریمو نے کہا کہ، یہاں کے لوگ احتجاج نہیں کرتے، وہ صرف سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔
اس موقع پر سابقہ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے عوام کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کہا۔ انھوں نے کہا کہ، میں آپ کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک اچھا سال عطا فرمائے، جس میں کافی برفباری اور بارشیں ہوں، جو فصلوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ برفباری اور بارش میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے برف اور بارش کے لیے دعا کریں تاکہ ہماری مشکلات دور ہو جائیں۔
دربار مو کو بند کیے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے فاروق عبداللہ نے اس کی ثقافتی اور فرقہ وارانہ اہمیت پر زور دیا۔
این سی صدر نے کہا کہ، دربار مو صرف دکانیں چلانے کے بارے میں نہیں تھی، اس نے کشمیر کے مسلمانوں اور جموں کے ہندوؤں کے درمیان ایک رشتہ پیدا کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ، ہمیں اس بندھن اور دوستی کو واپس لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہم آہنگی سے رہنا چاہیے اور ان رشتوں کو بحال کرنا چاہیے۔
دربار مو سے مراد ریاستی سیکرٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر کو گرمائی دارالحکومت سری نگر سے سرمائی دارالحکومت جموں منتقل کرنا ہے۔
یہ روایت 1872 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں شروع ہوئی تھی۔ یہ 2020 تک جاری رہی۔ لیکن یونین ٹیریٹری انتظامیہ نے اعلان کیا کہ جموں اور سری نگر دونوں میں ریاستی سیکرٹریٹ برقرار رکھے جائیں گے۔
فاروق عبداللہ سے جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کے ذریعہ ہندوتوا کو بیماری قرار دینے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا کہ، مفتی صاحبہ جو بیان دیتی ہیں وہ بطور رہنما ان کا اختیار ہے۔ میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ وہ جو بھی بیان دیتی ہیں وہ ان کی تشویش ہے، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
التجا مفتی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوتوا کا استعمال کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: