سرینگر: جموں و کمشمیر کی چار پارلیمانی نشستوں پر اب تک کی متاثر کن شرح ووٹنگ کے پس منظر میں کشمیر کے مین اسٹریم سیاست داں مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہاں جلد از جلد اسمبلی انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کی دادرسی ہوسکے۔
جہاں ادھم پور اور جموں کی دو سیٹوں پر ووٹنگ کی شرح پچاس فیصد سے زائد رہی وہیں وادی کشمیر کی سرینگر اور بارہمولہ نشستوں پر بھی بغیر کسی بائیکاٹ کے ووٹنگ شرح توقع سے زیادہ ہی رہی۔ سرینگر حلقے میں چالیس کے قریب جب کہ بارہمولہ نشست پر ساٹھ فیصد ووٹنگ درج کی گئی۔
چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا راجیو کمار نے گذشتہ روز دلی میں میڈیا کو بتایا کہ بارہمولہ اور سرینگر میں کامیاب انتخابات کے انعقاد سے ووٹنگ کی شرح حوصلہ افزا رہی جس سے ہمیں اعتماد ہوا کہ جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں۔
بارہمولہ اور سرینگر نشستوں پر ووٹنگ کے اختتام کے بعد اب ساری توجہ 25 مئی کو اننت ناگ-راجوری نشست پر ہونے والے الیکشن پر مرکوز ہوگئی ہے اور سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ اس حلقے میں بھی لوگ بڑی تعداد میں ووٹنگ کے لیے گھروں سے باہر نکلیں گے اور قوی امکان کے ووٹنگ شرح فیصد کے سابق ریکارڈ بھی توڑے جائیں گے۔
اس شرح کو مرکزی سرکار نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بدلتی صورت حال سے منسلک کیا۔ تاہم مقامی سیاسی جماعتوں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے مطابق یہ ووٹنگ دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف لوگوں کے غم و غصے کا جمہوری اظہار ہے۔
جموں کشمیر میں دسمبر سنہ 2014 میں اسمبلی انتخابات منعقد کیے گئے تھے۔ ان انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مخلوط سرکار تشکیل دی تھی۔ تاہم یہ سرکار تنازعات کا شکار رہی اور 19 جون سنہ 2018 کو بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حمایت واپس لی تھی۔ یوں محبوبہ مفتی سابق ریاست کی آخری وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ محبوبہ کو چلتا کرنے کے بعد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے ایک بار حکومت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے ان کی کوشش کو ناکام بنایا اور اسمبلی کو تحلیل کیا۔
گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد مسلسل صدر راج نافذ کیا گیا جس کا سلسلہ گذشتہ چھ سال سے جاری ہے۔ اس دوران ریاستی نمائندوں کو خاطر میں لائے بغیر مرکزی حکومت نے ریاست کا آئینی درجہ ختم کیا اور اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا۔ گذشتہ سال بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔
مقامی سیاسی رہنما کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں اب انتخابات منعقد کرنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے جموں کشمیر کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کیا اور یہاں لیفٹنٹ گورنر تعینات کیا جو گذشتہ پانچ برسوں سے یہاں کا نظام چلا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق رکن پارلیمان شریف الدین شارق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کہ جموں و کمشیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ان حکمرانوں اور افسران کو عوام پر مسلط کیا گیا ہے جنہیں کوئی جانتا نہیں ہے اور جنہیں لوگ صرف ٹیلی ویژن پر ہی دیکھتے ہیں۔
ایک مقامی شہری غلام محمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ دفعہ 370 کو منسوخی کے بعد یہاں کے عوامی مسائل کا ازالہ نہیں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں جلد از جلد اسمبلی انتخابات منعقد کیے جانے چاہیے تاکہ لوگوں کو اپنا نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے۔
نیشنل کانفرنس کی یوتھ ونگ کے صوبائی صدر سلمان ساگر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جموں کشمیر میں حالات اسمبلی انتخابات کے لیے موزوں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارہمولہ اور سرینگر نشستوں پر ووٹنگ کی شرح نے سرکار کو بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ یہاں اسمبلی انتخابات کے علاوہ پنچایت اور بلدیاتی انتخابات منعقد کرے۔
پی ڈی پی کے سٹیٹ سیکرٹری عارف لائگرو نے کہا کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اسمبلی انتخابات کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بی جے پی سرکار کو ہدایت دی ہے کہ رواں برس ستمبر تک جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کیے جائیں۔ انہوں نے بی جے پی پر عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا جب تک اسمبلی انتخابات کے لئے نوٹیفکیشن جاری نہ کرے تب تک بی جے پی کی جانب سے یہاں اسمبلی الیکشن منعقد کرنے کے بیانات جملہ بازی کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: