سرینگر: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت مرکزی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیم جماعت اسلامی نے سرینگر پارلیمانی انتخابات میں ان کے کچھ ممبران کی جانب سے ووٹ ڈالے جانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’انہوں نے جمہوری عمل کا ساتھ دیا ہے، کیونکہ جماعت اسلامی کے آئین میں بھی الیکشن میں شمولیت کرنے کے متعلق واضح اجازت دی گئی ہے۔‘‘ ان باتوں کا اظہار جماعت اسلامی کے سینئر رکن غلام قادر وانی نے سرینگر میں صحافیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کیا۔ غلام قادر نے یہ بھی کہا کہ اگر تنظیم پر عائد پابندی ہٹائی جائے گی تو وہ الیکشن میں شرکت کر سکتے ہیں۔
غلام قادر وانی، ضلع پلوامہ کے گوسو گاؤں کے رہنے والے ہیں اور جماعت کے دیرینہ رکن تھے، ان کا کہنا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے پینل کے رکن ہیں اور پابندی کے بعد انہوں نے یہ پینل قائم کیا ہے تاکہ جماعت کے معاملات دیکھے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد کچھ عناصر نے سوشل میڈیا پر ایک بیان شائع کیا کہ جماعت اسلامی کے غلام قادر وانی کا ووٹ ڈالنا ان کا ذاتی معاملہ ہے اور جماعت ان کے ویڈیو بیان سے اتفاق نہیں رکھتی ہے۔‘‘ تاہم غلام قادر وانی نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بیان جماعت اسلامی کی جانب سے نہیں دیا گیا تھا بلکہ کسی شرپسند نے سوشل میڈیا پر شائع کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ بارہمولہ میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کارکنان کو اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنا ووٹ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر مرکزی سرکار اس تنظیم پر عائد پابندی ختم کر دے گی تو آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی جماعت اسلامی حصہ لے گی۔‘‘
غور طلب ہے کہ ضلع پلوامہ کے سابق رکن جماعت و ناظم تعلیم غلام قادر وانی نے پارلیمانی انتخابات میں شرکت کی اور اپنا ووٹ ڈالا، جس کی تصویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شائع ہوئی تھی۔ غلام قادر نے اس پر ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا کہ جماعت اسلامی نے کبھی الیکشن بائیکاٹ نہیں کیا تھا تاہم جب سنہ 1987 میں اسمبلی انتخابات میں دھاندلیاں ہوئی تھیں تو انہوں نے اس جمہوری عمل سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔
وانی کے اس بیان کے ایک روز بعد سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری ہوا، جسے جماعت اسلامی کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’جماعت کے قائم مقام شوریٰ کے ممبران بشمول غلام قادر لون ہندوارہ، غلام محمد وار گاندربل، احمد اللہ پرے کھرم اور شمیم احمد پلوامہ شامل ہیں۔ یہ ممبران اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری کی توسط سے مرکزی سرکار کے ساتھ رابطے استوار کرنے میں مصروف ہیں۔ تاہم ان کی اس تگ و دو کو شوری کی جانب سے طلب گئے اجلاس نے رد کر دیا۔‘‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’غلام قادر وانی کی جانب سے ووٹ ڈالنے کے بعد ویڈیو انٹرویو دینا ان کی ذاتی رائے ہے جس کے ساتھ جماعت اسلامی اتفاق نہیں کرتی ہے۔'
واضح رہے کہ جماعت اسلامی کو سال 2019 میں ہوئے پلوامہ خودکش حملوں کے بعد کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ ان پر اُس وقت پانچ برس کی پابندی عائد کی گئی جس میں پانچ مزید برسوں کی توسیع کی گئی۔ جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ لیڈران اس وقت جیلوں میں قید ہیں اور ان کے کارکنان دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد بکھر گئے ہیں۔ ان کے اثاثوں و اداروں کو بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نے جمہوری عمل میں حصہ لیا اور حق رائے دہی کا استعمال کیا: غلام قادر وانی