سرینگر (جموں کشمیر) : پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی مشیر، التجا مفتی نے جموں کشمیر میں انتخابات سے قبل ایل جی انتظامیہ کے رویے پر سخت تنقید کی۔ جمعہ کی شام سرینگر میں پارٹی کے دفتر میں طلب کی گئی ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران التجا نے انتخابات کے اعلان کا خیرمقدم کیا تاہم انہوں انتخابات کو منصفانہ طور منعقد کرنے کی امید ظاہر کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔
التجا نے کہا: ’’بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، پھر بھی یہاں چھ سال سے انتخابات نہیں ہوئے۔ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن یہ چھ سال پہلے ہونا چاہیے تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں تاہم یہ ہم پر کوئی احسان نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے۔‘‘
انہوں نے ایل جی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات کی غیر جانبداری پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ التجا کا کہنا تھا: ’’ہمیں امید ہے کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے ہونے چاہئیں۔ انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے بالکل پہلے، ایل جی کی قیادت والی جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے تقریباً 150-200 تبادلے اچانک اور غیر منصفانہ طور پر کیے گئے۔ یہاں کی انتظامیہ کا رویہ تعصب اور جانبداری سے بھرا ہوا ہے، یہ بی جے پی کے حق میں ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ انہوں نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ کتنا معاندانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔‘‘
التجا نے ڈائریکٹر جنرل پولیس (ڈی جی پی) آر آر سوین کو سیاسی بیانات دینے پر بھی تنقید کی، جو ان کے بقول ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انتخابات کو کسی بھی سیاسی اثر و رسوخ، خاص طور پر بی جے پی کے اثر سے پاک رکھا جائے۔ محبوبہ مفتی کا الیکشن میں حصہ لینے کے حوالہ سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں التجا مفتی نے کہا: ’’اس سوال کا جواب وہ خود دیں گی، تاہم مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ایک با اختیار ریاست کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہے اور اب یونین ٹیریٹری میں الیکشن نہیں لڑیں گی۔‘‘
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے آج اعلان کیا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات تین مراحل میں ہوں گے، جو 18 ستمبر سے شروع ہوں گے، جبکہ دوسرے مرحلے کے انتخابات 25 ستمبر اور آخری مرحلے کے تحت انتخابات یکم اکتوبر کو ہوں گے۔ ووٹوں کی گنتی 4 اکتوبر کو ہوگی۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر میں ایک دہائی کے بعد پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات منعقد ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: عمر عبداللہ کا اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ - JK Assembly Elections