سرینگر (جموں کشمیر) : میرواعظ کشمیر اور علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے چیرمین مولوی محمد عمر فاروق نے ایک بار پھر عالمی سطح پر بدلتے جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے پیش نظر ’’متنازعہ مسائل کے پر امن حل‘‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’حریت کانفرنس اپنے قیام سے لیکر آج تک اپنے اس دستوری موقف پر سختی سے قائم ہے کہ مسائل کو طاقت اور تشدد سے نہیں بلکہ بامعنی مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘ میرواعظ کشمیر نے ان باتوں کا اظہار مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک بھاری اجتماع سے خطاب (خطبہ جمعہ) کے دوران کیا۔
میرواعظ کشمیر نے وزیراعظم نریندر مودی کے برکس(BRICKS) سربراہی اجلاس میں دیئے گئے بیان جس میں وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’یہ دور تشدد کا نہیں بلکہ ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی کا دور ہے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’حریت کانفرنس نے مسئلہ (کشمیر) کے حل کے حوالے سے ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے پر ہی زور دیا ہے اور ہم نے آنجہانی شری اٹل بہاری واجپائی، شری منموہن سنگھ اور مرحوم جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی مذاکرات کے کئی دور کئے ہیں اور آج بھی ہم حکومت ہند کے ساتھ اس دیرینہ تنازع کے حل کیلئے بات چیت کیلئے تیار ہیں۔‘‘
میرواعظ کشمیر نے کہا کہ اگست 2019 سے ساڑھے چار سال تک وہ اپنے گھر میں نظر بند رہے اور اس کے بعد گزشتہ دنوں پہلی بار وہ اپنے قریبی ساتھیوں (علیحدی پسند لیڈران) پروفیسر عبدالغنی بٹ، بلال غنی لون، مولانا مسرور عباس انصاری کے ساتھ پہلی میٹنگ ہوئی جو کہ ایک جذباتی لمحہ تھا۔ اس دوران ہم نے اپنے ان تمام ساتھیوں بشمول سید علی گیلانی، مولانا محمد عباس انصاری، محمد مصدق عادل، محمدا شرف صحرائی جو میری نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے تھے کو یاد کیا گیا اور اس کے ساتھ جیلوں میں مقید محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، محترمہ آسیہ اندرابی، شاہد الاسلام، جناب نعیم احمد خان، محمد قاسم فکتو، مسرت عالم بٹ، پیر حفیظ اللہ اور ایاز اکبر شامل ہیں، کی مسلسل حراست پر بھی میٹنگ میں تشویش کا اظہار کیا۔
میرواعظ کشمیر نے کہا کہ 1993 میں جب حریت کانفرنس کی تشکیل ہوئی اُس وقت جموں کشمیر میں عسکریت پسندی اپنے عروج پر تھی اور اس وقت کی مشکل صورتحال میں بھی حریت کانفرنس نے تنازع کشمیر کے پر امن حل کی وکالت کی اور30سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد آج بھی حریت کانفرنس اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ تشدد اور طاقت نہیں بلکہ پر امن مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔
علیحدگی پسند لیڈر نے مزید کہا کہ ’’کشمیر میں ان تیس برسوں کے دوران بہت خون بہا ہے اور ابھی حالیہ دنوں ہی گگن گیر، گاندربل اور اب گلمرگ جیسے ہائی سیکورٹی زون میں بھی ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں جو کہ بہت سنگین معاملات ہیں لہٰذا ان کی تحقیقات ہونی چاہئے۔‘‘ اس موقع پر مرحوم مزاحمتی قائدین کے ایصال ثواب کیلئے اجتماعی طور فاتحہ خوانی کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیردفاع راجناتھ سنگھ کے بیان پر کل جماعتی حریت کانفرنس کا ردعمل