ETV Bharat / international

مغربی کنارے میں نئی فلسطینی حکومت غزہ جنگ کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

author img

By AP (Associated Press)

Published : Feb 27, 2024, 10:29 AM IST

Palestinian Authority and Gaza فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ کے استعفے کے بعد کئی قیاس آرائیوں کا دور دورہ ہے۔ محمد اشتیہ کے استعفے کو امریکہ کی غزہ میں جنگ کے بعد کی منصوبہ بندی سے جوڑ کر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ایسا اندازہ لگایا جارہا ہے کہ محمود عباس محمد اشتیہ کی جگہ امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک کی پسند محمد مصطفیٰ کو وزیراعظم کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

Etv Bharat
Etv Bharat

مشرقی یروشلم: فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے پیر کے روز اپنی حکومت سے مستعفی ہو گیے۔ اس استعفے کو امریکہ کی طرف سے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے بنائے گئے نئے منصوبوں کے تحت کیے جانے والے اصلاحاتی عمل کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کے اپنے لوگوں میں قانونی حیثیت کی دیرینہ کمی یا اسرائیل کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو دور کرنے کے لئے بہت کم کام کرے گا۔ دونوں امریکی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ بھی فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہو۔ لیکن اسرائیل امریکہ کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے۔

یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ 30 ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور غزہ کو قحط کے دہانے پر دھکیلنے والی یہ جنگ حماس کے کی شکست کے ساتھ ختم ہو گی۔

  • فلسطینی اتھارٹی کیا ہے؟

فلسطینی اتھارٹی کو 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان عبوری امن معاہدوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا، جس کی قیادت یاسر عرفات نے کی تھی۔

اسے مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں محدود خودمختاری دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ دونوں علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم میں مکمل ریاست کا درجہ حاصل کیا جائے گا۔ مشرقی یروشلم وہ سرزمین ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس ضمن میں فریقین امن مذاکرات کے کئی دور کے بعد بھی کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ محمود عباس عرفات کی موت کے چند ماہ بعد 2005 میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ حماس نے اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جس سے فلسطینی اتھارٹی کے بین الاقوامی بائیکاٹ کا آغاز ہوا۔

عباس کی سیکولر الفتح پارٹی اور حماس کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2007 کے موسم گرما میں زور پکڑ گئی، حماس نے ایک ہفتے کی کشیدگی کے بعد غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے عباس کے اختیار کو مؤثر طریقے سے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں تک محدود کر دیا۔

عباس اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں اور دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز نے حماس اور دیگر مسلح گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کیا ہے، اور اس کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ورک پرمٹ، طبی سفر اور دیگر شہری امور میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔

  • استعفیٰ کا کیا مطلب ہے؟

اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں نئی حقیقت سے نمٹنے کے لیے نئے انتظامات کی ضرورت ہے۔ محمود عباس نے اشتیہ کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے اور توقع ہے کہ وہ ان کی جگہ محمد مصطفیٰ کو وزیراعظم بنانا چاہیں گے۔ محمد مصطفیٰ ایک امریکی تعلیم یافتہ ماہر اقتصادیات ہیں جو عالمی بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ محمد مصطفیٰ اس وقت فلسطین انویسٹمنٹ فنڈ کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ 2013-2015 تک نائب وزیر اعظم اور وزیر اقتصادیات رہے ہیں۔

مصطفیٰ کی شبیہ اشتیہسے بالکل مختلف ہے۔ مصطفیٰ ، شطیہ کی طرح الفتح کے وفادار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کی تقرری کا امریکہ، اسرائیل اور دیگر ممالک خیر مقدم کریں گے۔

مصطفیٰ کی اپنی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، اور 88 سالہ عباس اب بھی کسی بھی بڑی پالیسی پر حتمی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ پھر بھی، اس تقرری سے ایک اصلاح شدہ، پیشہ ور فلسطینی اتھارٹی کی تصویر سامنے آئے گی جو غزہ کو چلا سکتا ہے اور یہی بات امریکہ کے لیے اہم ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قائدین کا انتخاب کریں، لیکن یہ کہ امریکہ فلسطینی اتھارٹی میں "اصلاحات اور احیاء" کے لیے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات مثبت ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہیں۔"

  • فلسطینی اتھارٹی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟

حالیہ برسوں میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، سروے میں مسلسل یہ پایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی ایک بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں۔ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کا سیکیورٹی کوآرڈینیشن انتہائی غیر مقبول ہے، جس کی وجہ سے بہت سے فلسطینی اسے قبضے کے ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے دبایا ہے اور ناقدین کو جیلوں میں ڈالا اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ عباس کا مینڈیٹ 2009 میں ختم ہو گیا تھا لیکن انہوں نے اسرائیلی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔

حماس کی مقبولیت تشدد کے حالیہ اور ماضی کے ادوار کے دوران بڑھی ہے۔ اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حماس ممکنہ طور پر کسی بھی آزاد انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

لیکن اب تک کے سب سے زیادہ مقبول فلسطینی رہنما مروان برغوتی ہیں۔ مروان برغوتی الفتح کے رہنما ہیں۔ 2004 میں مروان برغوتی پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا تھا، تب سے وہ اسرائیلی جیل میں پانچ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

حماس 7 اکتوبر کے حملے میں گرفتار کیے گئے کچھ یرغمالیوں کے بدلے مروان برغوتی کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اسرائیل نے اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

حماس نے تمام فلسطینی دھڑوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کریں۔ لیکن اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ممکنہ طور پر کسی بھی فلسطینی تنظیم کا بائیکاٹ کریں گے کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

  • کیا اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرتا ہے؟

اسرائیل حماس پر فلسطینی اتھارٹی کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن اسرائیل فلسطینی اتھارٹی پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتا آیا ہے، اور فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل پر نسل پرستی اور نسل کشی کا الزام لگاتا آیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کے لیے مالی امداد کی فراہمی کو اسرائیل پسند نہیں کرتا اور بارہا فلسطینی اتھارٹی پر تنقید کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ رقم دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی مالی امداد کو قبضے کے متاثرین کے لیے سماجی بہبود کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ کے بعد جنگ میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل علاقے پر کھلے عام سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا جب کہ مقامی فلسطینی رہنما شہری امور کا انتظام کریں گے۔ نتن یاہو کی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالف بھی کر رہی ہے۔

امریکہ نے جنگ کے بعد ایک وسیع تصفیہ کے راستے کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں سعودی عرب دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو اور حکومت کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک احیاء شدہ فلسطینی اتھارٹی ہوگی اور یہ سب کچھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے قابل اعتبار راستہ بنائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:


مشرقی یروشلم: فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے پیر کے روز اپنی حکومت سے مستعفی ہو گیے۔ اس استعفے کو امریکہ کی طرف سے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے بنائے گئے نئے منصوبوں کے تحت کیے جانے والے اصلاحاتی عمل کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کے اپنے لوگوں میں قانونی حیثیت کی دیرینہ کمی یا اسرائیل کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو دور کرنے کے لئے بہت کم کام کرے گا۔ دونوں امریکی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ بھی فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہو۔ لیکن اسرائیل امریکہ کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے۔

یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ 30 ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور غزہ کو قحط کے دہانے پر دھکیلنے والی یہ جنگ حماس کے کی شکست کے ساتھ ختم ہو گی۔

  • فلسطینی اتھارٹی کیا ہے؟

فلسطینی اتھارٹی کو 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان عبوری امن معاہدوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا، جس کی قیادت یاسر عرفات نے کی تھی۔

اسے مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں محدود خودمختاری دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ دونوں علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم میں مکمل ریاست کا درجہ حاصل کیا جائے گا۔ مشرقی یروشلم وہ سرزمین ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس ضمن میں فریقین امن مذاکرات کے کئی دور کے بعد بھی کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ محمود عباس عرفات کی موت کے چند ماہ بعد 2005 میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ حماس نے اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جس سے فلسطینی اتھارٹی کے بین الاقوامی بائیکاٹ کا آغاز ہوا۔

عباس کی سیکولر الفتح پارٹی اور حماس کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2007 کے موسم گرما میں زور پکڑ گئی، حماس نے ایک ہفتے کی کشیدگی کے بعد غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے عباس کے اختیار کو مؤثر طریقے سے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں تک محدود کر دیا۔

عباس اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں اور دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز نے حماس اور دیگر مسلح گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کیا ہے، اور اس کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ورک پرمٹ، طبی سفر اور دیگر شہری امور میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔

  • استعفیٰ کا کیا مطلب ہے؟

اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں نئی حقیقت سے نمٹنے کے لیے نئے انتظامات کی ضرورت ہے۔ محمود عباس نے اشتیہ کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے اور توقع ہے کہ وہ ان کی جگہ محمد مصطفیٰ کو وزیراعظم بنانا چاہیں گے۔ محمد مصطفیٰ ایک امریکی تعلیم یافتہ ماہر اقتصادیات ہیں جو عالمی بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ محمد مصطفیٰ اس وقت فلسطین انویسٹمنٹ فنڈ کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ 2013-2015 تک نائب وزیر اعظم اور وزیر اقتصادیات رہے ہیں۔

مصطفیٰ کی شبیہ اشتیہسے بالکل مختلف ہے۔ مصطفیٰ ، شطیہ کی طرح الفتح کے وفادار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کی تقرری کا امریکہ، اسرائیل اور دیگر ممالک خیر مقدم کریں گے۔

مصطفیٰ کی اپنی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، اور 88 سالہ عباس اب بھی کسی بھی بڑی پالیسی پر حتمی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ پھر بھی، اس تقرری سے ایک اصلاح شدہ، پیشہ ور فلسطینی اتھارٹی کی تصویر سامنے آئے گی جو غزہ کو چلا سکتا ہے اور یہی بات امریکہ کے لیے اہم ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قائدین کا انتخاب کریں، لیکن یہ کہ امریکہ فلسطینی اتھارٹی میں "اصلاحات اور احیاء" کے لیے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات مثبت ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہیں۔"

  • فلسطینی اتھارٹی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟

حالیہ برسوں میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، سروے میں مسلسل یہ پایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی ایک بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں۔ اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کا سیکیورٹی کوآرڈینیشن انتہائی غیر مقبول ہے، جس کی وجہ سے بہت سے فلسطینی اسے قبضے کے ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے، مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے دبایا ہے اور ناقدین کو جیلوں میں ڈالا اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ عباس کا مینڈیٹ 2009 میں ختم ہو گیا تھا لیکن انہوں نے اسرائیلی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔

حماس کی مقبولیت تشدد کے حالیہ اور ماضی کے ادوار کے دوران بڑھی ہے۔ اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حماس ممکنہ طور پر کسی بھی آزاد انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔

لیکن اب تک کے سب سے زیادہ مقبول فلسطینی رہنما مروان برغوتی ہیں۔ مروان برغوتی الفتح کے رہنما ہیں۔ 2004 میں مروان برغوتی پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا تھا، تب سے وہ اسرائیلی جیل میں پانچ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

حماس 7 اکتوبر کے حملے میں گرفتار کیے گئے کچھ یرغمالیوں کے بدلے مروان برغوتی کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن اسرائیل نے اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

حماس نے تمام فلسطینی دھڑوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے ایک عبوری حکومت قائم کریں۔ لیکن اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ممکنہ طور پر کسی بھی فلسطینی تنظیم کا بائیکاٹ کریں گے کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھتے ہیں۔

  • کیا اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرتا ہے؟

اسرائیل حماس پر فلسطینی اتھارٹی کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن اسرائیل فلسطینی اتھارٹی پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتا آیا ہے، اور فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل پر نسل پرستی اور نسل کشی کا الزام لگاتا آیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کے لیے مالی امداد کی فراہمی کو اسرائیل پسند نہیں کرتا اور بارہا فلسطینی اتھارٹی پر تنقید کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ رقم دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی مالی امداد کو قبضے کے متاثرین کے لیے سماجی بہبود کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ کے بعد جنگ میں فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل علاقے پر کھلے عام سیکورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا جب کہ مقامی فلسطینی رہنما شہری امور کا انتظام کریں گے۔ نتن یاہو کی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالف بھی کر رہی ہے۔

امریکہ نے جنگ کے بعد ایک وسیع تصفیہ کے راستے کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں سعودی عرب دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کو تسلیم کرے گا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو اور حکومت کرنے میں مدد کرنے کے لیے ایک احیاء شدہ فلسطینی اتھارٹی ہوگی اور یہ سب کچھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے قابل اعتبار راستہ بنائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:


ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.