ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں سینکڑوں مظاہرین نے منگل کے روز صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔ احتجاجیوں نے معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بارے میں ایک حالیہ تبصرے کی وجہ سے صدر محمد شہاب الدین کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ ہفتے بنگلہ روزنامہ مناب زمین کے ساتھ ایک انٹرویو میں صدر شہاب الدین نے کہا کہ ان کے پاس اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے کہ شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو ملک سے فرار ہونے سے پہلے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کے اس بیان کے خلاف منگل کو ڈھاکہ میں زبردست احتجاج ہوا۔ مختلف بینرز کے نیچے احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے صدارتی محل 'بنگ بھابن' میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے بیچ جھڑپیں بھی ہوئیں۔
بعد ازاں فوج نے مداخلت کرتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر سے اپیل کی کہ مظاہرین صدارتی محل کے گیٹ سے ہٹ جائیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فوج نے صوتی دستی بم کا بھی استعمال کیا۔ فوج کی مداخلت کے بعد حالات کسی حد تک قابو میں آئے۔
بنگلہ دیشی روزنامے دی بزنس اسٹینڈرڈ نے ہسپتال کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ احتجاج کے دوران دو افراد گولی لگنے سے اس وقت زخمی ہوگئے جب سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو صدارتی محل کی رکاوٹیں توڑنے سے روکنے کے لیے گولیاں چلا دیں۔ پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے صوتی دستی بم سے ایک تیسرا شخص بھی زخمی ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ٹریبونل نے شیخ حسینہ واجد کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا
اس دوران طلبہ تحریک جس نے حسینہ کو بے دخل کرنے کی مہم کی قیادت کی، نے یہاں مرکزی شہید مینار کے سامنے ریلی نکالی اور شہاب الدین کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔
طلبہ تحریک نے شہاب الدین کی برطرفی کے لیے سات دن کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے بنگلہ دیش کے 1972 کے آئین کو ختم کرنے سمیت پانچ نکاتی مطالبات پیش کیے۔
متعلقہ عنوانات: پُرتشدد مظاہروں کے بیچ شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر ہندوستان پہنچ گئیں
شیخ حسینہ کی حفاظت کیلئے بھارت نے رافیل طیارے تعینات کیے تھے
تحریک کے ذمہ داروں نے کہا کہ "ہمارا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ 'مجیب الرحمٰن (بنگلہ دیش کے بانی رہنما) حامی 1972 کے آئین' کو فوری طور پر ختم کیا جائے جس نے انہیں آخری وقت تک اپنے عہدے پر برقرار رکھا تھا"۔
طلبہ تحریک کے ایک رہنما عبداللہ نے مرکزی شہید مینار پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’2024 کے عوامی انقلاب کے پس منظر میں ایک نیا آئین لکھ کر (1972) کے آئین کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس، عبوری حکومت کے سربراہ مقرر
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس ہفتے تک مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو مظاہرین "پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پر واپس آئیں گے"۔
پریمیئر ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس، شہید مینار، اور بنگ بھابن میں امتیازی سلوک مخالف طلبہ تحریک کے ساتھ مختلف بینرز تلے کئی دوسرے گروپ منگل کے احتجاج میں شامل ہوئے۔
متعلقہ خبر: بنگلہ دیش میں حکومت کا تختہ پلٹ : تصاویر کے آئینہ میں
اس سے قبل پروفیسر محمد یونس کی عبوری حکومت کے وزیر آصف نذر نے شہاب الدین پر "جھوٹ" کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ان کے ریمارکس "ان کے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ اپنے تبصروں پر قائم رہے تو عبوری حکومت کو یہ سوچنے کی ضرورت ہوگی کہ کیا وہ اب بھی اپنے عہدے پر رہنے کے اہل ہیں۔
واضح رہے کہ اپنے حالیہ بیان کے برعکس صدر شہاب الدین نے پانچ اگست کی رات ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا تھا کہ "آپ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اپنا استعفیٰ بھجوا دیا ہے اور مجھے وہ موصول ہو گیا ہے۔" انہوں نے یہ ریمارکس آرمی چیف جنرل وقار الزمان کے ساتھ بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں ساتھ دیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: محمد یونس کو وزیراعظم مودی کی مبارکباد، بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی سلامتی پر زور
بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملوں کے درمیان ڈھاکیشوری مندر پہنچے محمد یونس، کہا- 'سب کے لیے مساوی حقوق'
آصف نذر نے کہا کہ اب اگر صدر استعفیٰ وصول کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو ان کے دو بیانات میں سے ایک غلط ہوگا اور انہیں جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
قانونی امور کے مشیر آصف نذر نے وزارت اطلاعات کی مشیر ناہید الاسلام کے ساتھ جو امتیازی سلوک کے خلاف سٹوڈنٹس موومنٹ کے رہنما بھی ہیں، بعد میں چیف جسٹس سید رفعت احمد کے ساتھ تقریباً 40 منٹ کی قریبی ملاقات کی۔ میڈیا کی قیاس آرائیوں کے مطابق اس میٹنگ کا موضوع گفتگو صدر کا متنازع بیان اور ان کو ہٹانے کا طریقہ کار ہو سکتا ہے۔
آئین کے ماہر شاہدین ملک نے کہا کہ گرچہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کو صدر کے مواخذے کا اختیار حاصل ہے لیکن عبوری حکومت کوئی بھی کارروائی کر سکتی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ابھی بہت سی چیزیں قانون سے بالاتر ہو رہی ہیں"۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: طلباء کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبیدالحسن نے دیا استعفیٰ
ملک نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حقیقت کے برعکس حسینہ کے استعفی پر بحث غیر ضروری اور بلا وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سپریم کورٹ کی رائے پر عبوری حکومت قائم کی گئی ہے۔ اس لیے اب ان کے استعفے پر کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔
دریں اثنا، صدارتی محل بنگ بھابن نے ایک بیان میں کہا کہ صدر نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ایک 'حل شدہ مسئلے' پر دوبارہ تنازع نہ کھڑا کریں۔
واضح رہے کہ نوبل انعام یافتہ 84 سالہ محمد یونس آٹھ اگست کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر بن گئے جب وزیر اعظم حسینہ پانچ اگست کو بھارت فرار ہو گئیں۔