واشنگٹن: ایک امریکی سینیٹر نے بھارت میں سی اے اے کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیسے جیسے امریکہ اور بھارت کے تعلقات گہرے ہوتے جارہے ہیں، اس کے بعد یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہمارا تعاون تمام افراد کے ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کی مشترکہ اقدار پر مبنی ہو۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے گزشتہ ہفتے شہریت (ترمیمی) ایکٹ، 2019 کا نفاذ کیا، جو ایکٹ 31 دسمبر 2014 سے پہلے بھارت آنے والے پاکستانی، بنگلہ دیشی اور افغانستانی غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
جبکہ حکومت ہند نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سی اے اے ان کی شہریت پر اثر انداز نہیں ہوگا اور اس کا اس کمیونٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہندوؤں کے برابر حقوق حاصل کرتے ہیں۔
یو ایس سینیٹ کی طاقتور خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر بین کارڈن نے ایک بیان میں کہا کہ "مجھے بھارتی حکومت کے متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے نوٹیفیکیشن، خاص طور پر بھارتی مسلم کمیونٹی پر اس قانون کے ممکنہ اثرات پر گہری تشویش ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ نوٹیفیکیشن معاملات کو اس وقت مزید خراب کرتا ہے جب اس قانون کو رمضان کے مقدس مہینے میں اسے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جیسا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ انتہائی اہم ہوجاتا ہے کہ ہمارا تعاون مذہب سے قطع نظر تمام افراد کے انسانی حقوق کے تحفظ کی ہماری مشترکہ اقدار پر مبنی ہو۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خارجہ نے سی اے اے کے نوٹیفکیشن پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ مذہبی آزادی کا احترام اور تمام کمیونٹیز کے لیے قانون کے تحت یکساں سلوک بنیادی جمہوری اصول ہیں۔
جس کے بعد بھارت نے سی اے اے پر امریکی ریماکس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ "غلط معلومات اور غیر ضروری ہے۔ یہ قانون بھارت کے پڑوسی ممالک سے ستائے ہوئے ہندو، عیسائی، سکھ، بدھسٹ، جین اور پارسی اقلیتوں کو تیز رفتار شہریت فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی اے اے کے بارے میں فکر مند اور اس کے نفاذ کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں: امریکہ