ETV Bharat / international

برطانیہ کی نئی حکومت نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیا، نتن یاہو کی آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کو چیلنج کرنے کا منصوبہ ترک - Britain Against Netanyahu - BRITAIN AGAINST NETANYAHU

برطانیہ کی کیئر اسٹارمر حکومت نے غزہ سے متعلق سابقہ حکومت کی پالیسی میں بدلاؤ کا اشارہ دیا ہے۔ برطانوی حکومت نے واضح کیا کہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ذریعہ اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف جاری گرفتاری وارنٹ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔

برطانیہ کی نئی حکومت نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیا
برطانیہ کی نئی حکومت نے اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دیا (Photo: AP)
author img

By AP (Associated Press)

Published : Jul 26, 2024, 8:20 PM IST

Updated : Jul 26, 2024, 10:30 PM IST

لندن: برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے دفتر نے جمعہ کو ایک بیان جاری کیا ہے۔ بیان کے مطابق برطانیہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی درخواست میں مداخلت نہیں کرے گا۔

یہ اعلان سابق وزیر اعظم رشی سنک کے اعلان کردہ منصوبوں کے الٹ ہے۔ حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ، "یہ پچھلی حکومت کی طرف سے ایک تجویز تھی جو الیکشن سے پہلے پیش نہیں کی گئی تھی، اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ حکومت ہمارے دیرینہ موقف کے مطابق عمل نہیں کرے گی کہ یہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے۔"

واضح رہے اس ماہ کے شروع میں وزیراعظم اسٹارمر کی لیبر پارٹی نے رشی سنک کی کنزرویٹو کو پارلیمانی انتخابات میں زبردست شکست سے دو چار کیا تھا۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے نتن یاہو، گیلنٹ اور حماس کے تین رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ پر غزہ کی پٹی اور اسرائیل میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا ہے۔

نتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے اس اقدام کو شرمناک اور سام دشمنی قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی پراسیکیوٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حماس کے خلاف اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی تھی اور ایسا ہی برطانیہ کے سابق وزہراعظم رشی سنک نے کیا تھا۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے مئی میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر نتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ طلب کیے ہیں۔ برطانوی حکومت کا تازہ بیان اسرائیل کے لیے علامتی دھچکا ہے جس نے غزہ کی جنگ پر اسرائیل کی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کا زیادہ کچھ اثر ہونے والا نہیں ہے۔ کیونکہ اسرائیل عدالت کا رکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں، نتن یاہو اور گیلنٹ کو فوری طور پر قانونی چارہ جوئی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن گرفتاری کا خطرہ ان کے سفر کو مشکل بنا سکتا ہے۔

آئی سی سی نے حکومت کو چیلنج دائر کرنے کے لیے جمعے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔

اسٹارمر کے فیصلے نے برطانیہ اور امریکہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ جمعہ کے روز ان کے دفتر نے اس فیصلے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر طاقتوں کی علیحدگی اور قانون کی حکمرانی پر مضبوط یقین پر مبنی قرار دیا ہے۔

یہ مسئلہ اسٹارمر اور ان کی پارٹی کے لیے ایک مشکل ہے۔ انسانی حقوق کے سابق وکیل اسٹارمر پر اپنی پارٹی کی طرف سے غزہ میں جاری بحران پر سخت موقف اختیار کرنے کا دباؤ ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے ارادے سے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لندن میں زبردست احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

سٹارمر نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی فلسطین ریلیف ایجنسی انروا کے لیے فنڈنگ ​​بحال کی ہے، جسے سنک کی حکومت نے جنوری میں معطل کر دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو امن عمل کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرنے کا "ناقابل تردید حق" ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایمنسٹی انٹرنیشنل یو کے کی چیف ایگزیکٹیو سچا دیشمکھ نے ہیگ کی عدالت میں کارروائی کو چیلنج نہ کرنے کے اسٹارمر کے فیصلے کو قابل ستائش قرار دیا ہے۔

دیشمکھ نے کہا، "یہ پچھلی حکومت کی طرف سے مکمل طور پر گمراہ کن مداخلت تھی۔ "آئی سی سی کی انتہائی ضروری فلسطینی تحقیقات کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے، برطانیہ کو جنگی جرائم اور ممکنہ نسل کشی کے تمام مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔"

یہ بھی پڑھیں:

لندن: برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے دفتر نے جمعہ کو ایک بیان جاری کیا ہے۔ بیان کے مطابق برطانیہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی درخواست میں مداخلت نہیں کرے گا۔

یہ اعلان سابق وزیر اعظم رشی سنک کے اعلان کردہ منصوبوں کے الٹ ہے۔ حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ، "یہ پچھلی حکومت کی طرف سے ایک تجویز تھی جو الیکشن سے پہلے پیش نہیں کی گئی تھی، اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ حکومت ہمارے دیرینہ موقف کے مطابق عمل نہیں کرے گی کہ یہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے۔"

واضح رہے اس ماہ کے شروع میں وزیراعظم اسٹارمر کی لیبر پارٹی نے رشی سنک کی کنزرویٹو کو پارلیمانی انتخابات میں زبردست شکست سے دو چار کیا تھا۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے نتن یاہو، گیلنٹ اور حماس کے تین رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ پر غزہ کی پٹی اور اسرائیل میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا ہے۔

نتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے اس اقدام کو شرمناک اور سام دشمنی قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی پراسیکیوٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حماس کے خلاف اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی تھی اور ایسا ہی برطانیہ کے سابق وزہراعظم رشی سنک نے کیا تھا۔

آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم خان نے مئی میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر نتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے وارنٹ طلب کیے ہیں۔ برطانوی حکومت کا تازہ بیان اسرائیل کے لیے علامتی دھچکا ہے جس نے غزہ کی جنگ پر اسرائیل کی تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ آئی سی سی کے وارنٹ گرفتاری کا زیادہ کچھ اثر ہونے والا نہیں ہے۔ کیونکہ اسرائیل عدالت کا رکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں، نتن یاہو اور گیلنٹ کو فوری طور پر قانونی چارہ جوئی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن گرفتاری کا خطرہ ان کے سفر کو مشکل بنا سکتا ہے۔

آئی سی سی نے حکومت کو چیلنج دائر کرنے کے لیے جمعے کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔

اسٹارمر کے فیصلے نے برطانیہ اور امریکہ کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ جمعہ کے روز ان کے دفتر نے اس فیصلے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر طاقتوں کی علیحدگی اور قانون کی حکمرانی پر مضبوط یقین پر مبنی قرار دیا ہے۔

یہ مسئلہ اسٹارمر اور ان کی پارٹی کے لیے ایک مشکل ہے۔ انسانی حقوق کے سابق وکیل اسٹارمر پر اپنی پارٹی کی طرف سے غزہ میں جاری بحران پر سخت موقف اختیار کرنے کا دباؤ ہے۔ حماس کے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے ارادے سے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لندن میں زبردست احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

سٹارمر نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی فلسطین ریلیف ایجنسی انروا کے لیے فنڈنگ ​​بحال کی ہے، جسے سنک کی حکومت نے جنوری میں معطل کر دیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو امن عمل کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کرنے کا "ناقابل تردید حق" ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایمنسٹی انٹرنیشنل یو کے کی چیف ایگزیکٹیو سچا دیشمکھ نے ہیگ کی عدالت میں کارروائی کو چیلنج نہ کرنے کے اسٹارمر کے فیصلے کو قابل ستائش قرار دیا ہے۔

دیشمکھ نے کہا، "یہ پچھلی حکومت کی طرف سے مکمل طور پر گمراہ کن مداخلت تھی۔ "آئی سی سی کی انتہائی ضروری فلسطینی تحقیقات کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے، برطانیہ کو جنگی جرائم اور ممکنہ نسل کشی کے تمام مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے۔"

یہ بھی پڑھیں:

Last Updated : Jul 26, 2024, 10:30 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.