انقرہ، ترکی: ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی عدالت میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہونے کی درخواست دائر کر دی ہے۔ ہالینڈ میں ترکی کے سفیر نے ترک قانون سازوں کے ایک گروپ کے ہمراہ دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں مداخلت کا اعلامیہ جمع کرایا۔
ترکی غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کا سخت ترین ناقد ہے، اس کیس میں حصہ لینے کی کوشش کرنے والا تازہ ترین ملک بن گیا ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ، "دنیا میں کوئی بھی ملک بین الاقوامی قانون سے بالاتر نہیں ہے، بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ اس بات کو یقینی بنانے کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کی اسے سزا دی جائے۔"
اس سے قبل ایک ترک اہلکار نے بتایا تھا کہ ترکی اقوام متحدہ کی عدالت میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہونے کے لیے درخواست دائر کرے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اکثر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا موازنہ ایڈولف ہٹلر سے کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے، اسے بین الاقوامی عدالتوں میں سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے اور مغربی ممالک کو اسرائیل کی پشت پناہی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مئی میں ترکی نے غزہ پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کر دی تھی۔ مغربی ممالک کے برعکس جنہوں نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے، اردگان نے اس گروپ کی تعریف کرتے ہوئے اسے آزادی کی تحریک قرار دیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال کے آخر میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں اسرائیل پر غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگایا گیا ہے۔
اسرائیل نے نسل کشی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں کیے گئے حملے کے لیے ایک جائز دفاعی کارروائی ہے جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
نیکاراگوا، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور فلسطینی حکام نے اس مقدمے میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان کی درخواستوں پر عدالت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ اگر اس کیس کو تسلیم کیا جاتا ہے تو، ممالک تحریری گذارشات پیش کر سکیں گے اور عوامی سماعتوں میں بات کر سکیں گے۔
اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کی ابتدائی سماعتیں ہو چکی ہیں، لیکن توقع ہے کہ عدالت کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں برسوں لگ جائیں گے۔
2003 میں اردگان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سابق اتحادیوں ترکی اور اسرائیل کے درمیان غیر مستحکم تعلقات کا سامنا ہے۔ غزہ میں تنازعہ نے تعلقات کو معمول پر لانے کی حالیہ کوششوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
واضح رہے غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے جاری دس مہینوں کی اسرائیلی جارحیت میں اب تک تقریباً 40,000 فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے زیادہ تر اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں، اور غزہ کے قصبوں اور شہروں کے بڑے حصے کو اسرائیلی بمباری نے کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: