نئی دہلی: ہندوستان نے بدھ کی رات دیر گئے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ٹروڈو اکیلے ان کے لاپرواہی سے ہندوستان اور کینیڈا کے تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بیان جسٹن ٹروڈو کی جانب سے بدھ کے روز اس اعتراف کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان کی حکومت نے نئی دہلی کو صرف انٹیلی جنس معلومات فراہم کی ہیں اور خالصتانی علیحدگی پسند نجر سنگھ کے قتل میں مبینہ بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت (hard proof) نہیں ہیں۔
وفاقی انتخابی عمل اور جمہوری اداروں میں غیر ملکی مداخلت کے الزامات کی عوامی انکوائری کرنے والے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے ٹروڈو نے کہا کہ ''مودی حکومت کے مخالف کینیڈین شہریوں سے متعلق جانکاری ہندوستانی حکومت تک پہنچائی گئی اور پھر یہ مجرمانہ تنظیموں جیسے کہ لارنس بشنوئی گینگ کو منتقل کی گئی۔" بھیجی گئی معلومات کے نتیجے میں کینیڈین شہریوں کے خلاف تشدد ہوا۔'
انہوں نے کہا کہ جب کینیڈین ایجنسیوں نے بھارت سے الزامات کی تحقیقات کا کہا تو نئی دہلی نے ثبوت مانگے۔ اس وقت یہ بنیادی طور پر انٹلیجنس معلومات تھیں، ٹھوس ثبوت نہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم نے کہا کہ 'ہمارے پاس واضح اور یقینی طور پر اس سے بھی واضح اشارے تھے کہ ہندوستان نے کینیڈا کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔'
جسٹن ٹروڈو نے کہا، 'موسم گرما کے دوران خفیہ ایجنسیوں نے مجھے بتایا کہ نجر کے قتل میں حکومت ملوث تھی، لیکن اس کا کوئی واضح بین الاقوامی لنک نہیں تھا۔ تاہم اگست میں کینیڈا اور فائیو آئیز سے موصول ہونے والی انٹیلی جنس جانکاری سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت اس میں ملوث ہے۔ ہم نے بھارت کو بتایا کہ یہ ٹھوس ثبوت نہیں ہیں بلکہ یہ صرف انٹیلی جنس جانکاری ہے۔ ٹروڈو نے پبلک انکوائری کمیشن کو بتایا کہ 'یہ واضح اشارے ہیں کہ بھارت نے ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔'
وہیں انکوائری کمیشن کے سامنے کینیڈا کے وزیر اعظم کے اس بیان پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، "ہم نے آج جو سنا، اس سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں۔" کینیڈا نے ہندوستان اور ہندوستانی سفارت کاروں کے خلاف جو سنگین الزامات لگائے ہیں اس کی تائید کے لیے ہمیں کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
اس لاپرواہی سے ہندوستان اور کینیڈا کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ ذمہ داری اکیلے وزیر اعظم ٹروڈو کی ہے۔ ٹروڈو کا یہ بیان نئی دہلی کی جانب سے ہائی کمشنر اور دیگر سفارت کاروں اور اہلکاروں کو واپس بلانے کے فیصلے کے دو دن بعد سامنے آیا ہے۔