اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ، فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا نے اطلاع دی ہے کہ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اس کا ڈسٹری بیوشن سنٹر اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے گودام "جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اب ناقابل رسائی ہیں،"۔
جب دوجارک سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں، تو دوجارک نے کہا کہ انہوں نے نیویارک میں منگل کی اقوام متحدہ کی بریفنگ سے عین قبل اقوام متحدہ کی ایجنسی انروا کے ایک ساتھی سے بات کی تھی اور وہ یہ بتا نہیں پائے کہ فائرنگ کون کر رہا ہے۔"
دوجارک نے کہا کہ، "یہ ایک فعال جنگی علاقہ ہے۔ گولیاں چل رہی ہیں، اس لیے ان علاقوں تک رسائی نہیں ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ، فریقین شدت سے جنگ کر رہے ہیں، "۔
امداد کی معطلی کے اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر، انھوں نے سادگی سے کہا کہ "لوگ کھا نہیں پائیں گے۔"
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر کے آپریشنز ڈائریکٹر ایڈم ووسورنو نے پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ رفح کراسنگ 17 مئی سے انسانی امداد اور ایندھن کی ترسیل کے لیے بند اور ناقابل رسائی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ، "تقریباً 82,000 میٹرک ٹن سامان رفح کراسنگ پر مصر کی طرف پھنسا ہوا ہے۔ وہ کھانا خراب ہو رہا ہے، اور دوائیں بیکار ہو رہی ہیں،‘‘
پچھلے دو ہفتوں کے دوران، لاکھوں لوگ افراتفری کے عالم میں رفح خالی کر چکے ہیں، وہ نئے محفوظ مقام کی تلاش میں یا پچھلے اسرائیلی حملوں سے تباہ شدہ علاقوں میں جمع ہو رہے ہیں۔ فلسطینی شہری امور کے انچارج اسرائیلی فوجی دفتر کوگیٹ کے مطابق، رفح سے اب تک تقریباً 900,000 فلسطینی نقل مکانی کر چکے ہیں، اس کے باوجود رفح میں ابھی بھی تقریباً 400,000 افراد اب بھی موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ، اس کے پاس وسطی غزہ کے لیے خوراک ختم ہو رہی ہے، جہاں اس وقت لاکھوں لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ڈبلیو ایف پی کے ترجمان، عبیر عطیفہ نے کہا، "غزہ میں انسانی بنیادوں پر کارروائیاں ختم ہونے کے قریب ہیں۔" انہوں نے کہا کہ اگر خوراک اور دیگر سامان غزہ میں "بڑی مقدار میں داخل ہونا شروع نہیں ہوتا ہے، تو قحط جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔"
واضح رہے غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 35,647 فلسطینی ہلاک اور 79,852 زخمی ہو چکے ہیں۔ مہلوکین میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔