غزہ: غزہ میں اسرائیل کے خونریز حملوں میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک جبکہ تقریباً ایک لاکھ زخمی ہیں۔ غزہ کا بیشتر حصہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غزہ کی 90 فیصد آبادی کو سکون نہیں ہے کیوں کہ اسرائیل ہر دوسرے دن انخلاء کے احکامات جاری کر دیتا ہے۔ اب تو اسرائیل نے ایسے علاقوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جن علاقوں کو وہ خود محفوظ زون قرار دیتا آیا ہے۔ ایسے میں غزہ اور اسرائیل کے عوام کو جنگ بندی مذاکرات سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں جو حال میں بغیر کسی حتمی معاہدے کے ختم ہو گئی ہیں۔ پوری دنیا دونوں فریقین سے جنگ بندی معاہدے کی اپیل کر رہی ہے، لیکن سیاست اور مفادات معاہدے پر حاوی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار ایک حتمی جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام کیوں ہیں؟
کسی بھی معاہدے کے لیے دونوں فریقین کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے:
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو اور حماس کے رہنما یحییٰ سنوار دو ایسے دشمن ہیں جو ایک دوسرے کو ختم کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔ دونوں بدنام زمانہ سخت مذاکرات کار ہیں اور جانتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ ان کی وراثت کو گہرائی سے تشکیل دے گا۔ سنوار کے معاملے میں، اس کا مطلب زندگی یا موت ہو سکتا ہے۔
جنگ کے خاتمے کے لیے دونوں کو مضبوط ترغیبات ہیں۔ تو جانیے ان دونوں رہنماؤں اور انھیں درپیش رکاوٹوں کے بارے میں۔۔
نتن یاہو کیا چاہتے ہیں؟
نتن یاہو نے حماس پر مکمل فتح اور غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی واپسی کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے یہ دونوں اہداف ایسے ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
نتن یاہو یرغمالیوں کے خاندانوں اور زیادہ تر اسرائیلی عوام کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے تک پہنچنے کا زبردست دباو ہے، چاہے اس سے حماس کی شکست و ریخت برقرار رہے۔ اسرائیل کو کلیدی فوجی امداد اور سفارتی مدد فراہم کرنے والا امریکہ بھی ایسے معاہدے کے لیے زور دے رہا ہے۔ لیکن نتن یاہو کا حکومتی اتحاد انتہائی دائیں بازو کے وزراء پر انحصار کرتا ہے جو غزہ پر مستقل طور پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے نتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ حماس کے آگے جھکتے ہیں تو حکومت گرا دیں گے۔ ایسی صورتحال میں نتن یاہو کو قبل از وقت انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا جو انھیں ایک ایسے وقت میں اقتدار سے ہٹا سکتا ہے جب ان پر بدعنوانی کا مقدمہ چل رہا ہے۔
یہی نہیں اگر حکومت گر جائے گی تو 7 اکتوبر کے حملے کے ارد گرد سیکیورٹی کی ناکامیوں پر بھی نتن یاہو سے وسیع تر حساب کتاب لیا جائے گا۔ فی الحال نتن یاہو نے جنگ ختم ہونے تک حکومتی تحقیقات کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ اسرائیل کسی ایسی چیز کو حاصل کرے جو فتح نہ ہو کر کم از کم فتح کی طرح نظر آئے۔ جس میں سے ایک یحییٰ السنوار کا قتل، مزید یرغمالیوں کی بازیابی شامل ہے جس سے کہ نتن یاہو کو اپنی سیاسی حیثیت کو ٹھیک کرنے اور اپنی میراث کو نئی شکل دینے کا موقع ملے گا۔ لیکن اس طرح کی فتح کا موقع نتن یاہو کے لیے خطرات سے بھرا ہوا ہے کیونکہ حماس کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد تقریباً ہر روز بڑھ رہی ہے اور اسرائیل فلسطینیوں کو پہنچنے والے مصائب کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تیزی سے تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
نیتن یاہو جنگ کے آخری اوقات میں اپنے ہی وزیر دفاع سے جھگڑ پڑے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا ایسی خبروں سے بھرا ہوا ہے جس میں نامعلوم سینئر سیکیورٹی حکام کے حوالے سے نتن یاہو سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے، خاص طور پر غزہ میں دو اسٹریٹجک راہداریوں پر دیرپا کنٹرول کا مطالبہ شامل ہے۔ کچھ نے تو نتن یاہو پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اسرائیل اور حماس دونوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی کی ایک ابھرتی ہوئی تجویز کے مختلف ورژن کو اصولی طور پر قبول کر لیا ہے، جبکہ دونوں نے معاہدے میں ترمیمات کی تجویز دی ہے اور ایک دوسرے پر ناقابل قبول مطالبات کرنے کا الزام لگایا ہے۔
یحییٰ السنوار کیا چاہتے ہیں؟
حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار صرف اپنی شرائط پر جنگ ختم کرنا چاہتا ہے۔ غزہ کے مقامی صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کی جارحیت سے 40,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے اور اس کے اہم شہروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ حماس نے ہزاروں جنگجوؤں اور اپنے عسکری ڈھانچے کا بڑا حصہ بھی کھو دیا ہے۔
اب یحییٰ السنوار کی سودے بازی کی صرف تقریباً 110 یرغمالیوں پر ٹکی ہوئی ہے جو اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ان یرغمالیوں میں سے بھی ایک تہائی ہلاک ہو چکے ہیں۔ یحییٰ السنوار کو جنگ میں عارضی توقف سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔ جیسے جب کچھ یا تمام یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا تو اسرائیل جنگ دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔ السنوار کو ضرورت ہے کہ اسرائیل پورے غزہ سے دستبردار ہو جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ 7 اکتوبر کے حملے کا دیرپا اثر علاقے پر مستقل دوبارہ قبضہ نہیں ہے۔ ایک معاہدے کے حصے کے طور پر ہائی پروفائل فلسطینی قیدیوں کی رہائی سنوار کے لیے ایک بڑا مقصد ہے، جو بذات خود ایک طویل عرصے تک قید کی زندگی گزار چکے ہیں۔ اور انھیں یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے اور ان کی تعمیر نو کر سکیں گے۔
لبنانی سیاسی تجزیہ کار نبیح عودہ نے کہا کہ "سنوار مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچانے کے لیے بہت زیادہ فکر مند ہیں، چاہے جنگ بندی کے حوالے سے ہو یا قیدیوں کے تبادلے کے، کیونکہ دونوں صورتوں میں سنوار فاتح کے طور پر سامنے آئیں گے۔"
اسرائیل جس طرح کی حماس اور حزب اللہ کے لیڈروں کی ٹارگیٹ کلنگ کو انجام دے رہا ہے اس میں سنوار کی بھی جان جا سکتی ہے لیکن حماس کی تاریخ اور نظریے میں شہادت کی مرکزیت کو دیکھتے ہوئے، وہ محسوس کر سکتا ہے کہ شہادت اس معاہدے سے بہتر ہے جو شکست کی طرح نظر آ رہی ہے۔
کیا کوئی بیرونی دباؤ مدد کر سکتا ہے؟
مصر اور قطر نے حماس کے ساتھ کلیدی ثالث کے طور پر کام کیا ہے لیکن ان کا اثر و رسوخ محدود ہے۔ حماس کی جلاوطن قیادت پر کسی بھی قسم کے دباؤ کا حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار پر زیادہ اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنوار نے گزشتہ 10 ماہ کا زیادہ تر حصہ غزہ کے نیچے سرنگوں میں گزارا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ اس کا بیرونی دنیا سے کتنا رابطہ ہے۔
امریکہ نے پورے تنازع میں اسرائیل کو اہم فوجی مدد فراہم کی ہے اور اسے جنگ بندی کے بین الاقوامی مطالبات سے بچاتا آیا ہے۔ اس سال کے شروع میں، صدر جو بائیڈن نے سینکڑوں 2,000 پاؤنڈ (900 کلوگرام) بموں کی کھیپ روک دی تھی تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ جنوبی شہر رفح پر حملہ نہ کرے لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔
امریکی انتخابی سیاست امریکی دباؤ کو بھی ختم کر سکتی ہے۔ بائیڈن نے نتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے لیے بہت کم جھکاؤ ظاہر کیا ہے، اور نائب صدر کملا ہیرس نے پالیسی میں کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی جارحیت ختم کردے لیکن ممکنہ طور پر نتن یاہو کے لیے اس سے بھی زیادہ نرمی کا مظاہرہ کرے گا، جیسا کہ وہ اپنے دور صدارت میں تھا۔
کسی بھی امریکی ہتھیاروں کی پابندی کا امکان اس وقت بھی کم ہے جب اسرائیل کو ہنیہ کے قتل پر ایران کی طرف سے ممکنہ جوابی حملے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے بجائے، امریکہ نے اسرائیل پر دباؤ ڈالتے ہوئے خطے میں فوجی اثاثے طعینات کر دیے ہیں۔
سنوار کو امید ہو سکتی ہے کہ گزشتہ ماہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر فواد شکور کی ٹارگٹ کلنگ جنگ کو وسیع کر دے گی۔ لیکن اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے، اسرائیل اور حزب اللہ دونوں نے ہفتے کے آخر میں شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد بریک لگا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: