سیئول، جنوبی کوریا: جنوبی کوریا کے صدر نے بدھ کو صبح سویرے ملک میں نافذ مارشل لاء کو اٹھا لیا۔ صدر کو سیاسی دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا۔ پارلیمنٹ میں مارشل لاء پر ووٹنگ ہوئی۔ 300 نشستوں والے ایوان میں 190 قانون سازوں نے مارشل لاء کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہی فوج نے پارلیمنٹ کو گھیر لیا تھا۔
صدر یون سک یول نے حزب اختلاف سے مایوسی کی وجہ سے منگل کو دیر گئے مارشل لاء نافذ کر دیا تھا۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ملک مخالف طاقتوں کو ختم کر دیں گے۔
پارلیمنٹ میں مارشل لاء کی مخالفت میں ہوئی ووٹنگ کے بعد پولیس اور فوجی اہلکاروں کو پارلیمنٹ کے احاطہ سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے فوری بعد کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں باضابطہ طور پر مارشل لاء کو اٹھا لیا گیا۔
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پارلیمنٹ نے تیزی سے کام کیا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس قانون کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون ساز عوام کے ساتھ جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔
مجموعی طور پر مارشل لاء تقریباً چھ گھنٹے تک نافذ رہا۔ اس دوران کچھ مظاہرین نے ووٹنگ سے قبل فوجیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔
جنوبی کوریا کے آئین کے تحت، صدر جنگ کے وقت، جنگ جیسے حالات یا دیگر تقابلی قومی ہنگامی حالتوں کے دوران مارشل لاء نافذ کر سکتا ہے۔ اس کا مقصد امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔
صدر کے حیران کن اقدام نے آمرانہ رہنماؤں کے اس دور کی طرف اشارہ کیا جسے ملک نے 1980 کی دہائی سے نہیں دیکھا تھا، اور حزب اختلاف نے اس کی مذمت کی تھی۔
جب مارشل لاء کا اعلان کیا جاتا ہے، تو آزادی صحافت، اجتماع کی آزادی اور دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ عدالتوں کی طاقت کو محدود کر دیا جاتا ہے۔
صدر کے مارشل لا اٹھانے کے اعلان کے بعد جنوبی کوریا میں اپوزیشن کی جانب سے جشن منایا جا رہا ہے۔