رام اللہ، مغربی کنارہ: اسرائیل گزشتہ نو مہینوں سے غزہ میں اپنی پوری فوجی طاقت کے ساتھ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز پر حملے کر رہا ہے۔ آئے دن اسرائیلی ڈفینس فورس سینکڑوں جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک وہ اس ضمن میں کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے۔ جنگ کے نو مہینوں بعد بھی اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگجو دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ القسام بریگیڈز سے غزہ میں مقابلہ کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کو اتنا مضبوط کرنے میں کس شخص نے اتنا دماغ لڑایا ہے۔ اور اسرائیل صرف اس شخص کو نشانہ بنانے کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر حملے کیوں کر رہا ہے۔ سنیچر کو بھی اسرائیل نے القسام بریگیڈز کے سربراہ کو نشانہ بنا کر خان یونس میں حملہ کیا، جس میں کم از کم 90 عام فلسطینی ہلاک اور 300 زخمی ہو گئے۔ تاہم حماس کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں القسام بریگیڈز کے سربراہ محمد ضیف بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور وہ ٹھیک ہیں۔
اسرائیل نے حماس گروپ کے ملٹری ونگ کے رہنما محمد ضیف کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ محمد دیف طویل عرصے سے اسرائیل کی سب سے زیادہ مطلوب فہرست میں سرفہرست ہیں۔
حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ، ابھی تک قطعی طور پر یقینی نہیں ہے کہ آیا ضیف اور اس حملے کا ایک اور ہدف رافع سلامہ مارا گیا ہے۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ حماس کی پوری قیادت موت کے منہ میں ہے۔
ایسے میں یہ یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر القسام بریگیڈز کے رہنما محمد ضیف اسرائیل کی مطلوبہ فہرست میں سر فہرست کیوں ہیں۔
محمد ضیف کون ہیں؟
ضیف 1990 کی دہائی میں حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈز کے بانیوں میں سے ہیں اور 20 سال سے زائد عرصے تک اس یونٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے غزہ کے رہنما یحییٰ سنور اور محمد ضیف 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حملے کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔
کئی سالوں سے محمد ضیف اسرائیل کی سب سے زیادہ مطلوبہ فہرست میں سرفہرست ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ متعدد اسرائیلی قتل کی سازشوں میں زندہ بچ جانے کے بعد مفلوج ہو گئے تھے۔ وہ برسوں سے عوامی زندگی کا حصہ نہیں ہیں، اور ان کی صرف چند تصاویر آن لائن موجود ہیں۔ 7 اکتوبر کی صبح، حماس نے دیف کی ایک نادر آواز کی ریکارڈنگ جاری کی جس میں الاقصیٰ فلڈ آپریشن کا اعلان کیا گیا تھا۔
ضیف، سنوار کی طرح، 1960 کی دہائی کے اوائل میں جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ 1980 کی دہائی کے آخر میں اسلامی فلسطینی گروپ کی تشکیل کے فوراً بعد حماس میں شامل ہو گئے۔
1989 میں، پہلی فلسطینی انتفاضہ، یا بغاوت کے عروج کے دوران، ضیف کو اسرائیل نے گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔
محمد ضیف کو 2002 میں القسام بریگیڈ کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے غزہ کے نیچے سے گزرنے والی سرنگوں کے جال کو بڑھانے میں مدد کی ہے، اور انھیں اسرائیل نے خودکش بم حملوں سمیت متعدد اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ضیف کی شخصیت بہت پیچیدہ ہے:
محمد ضیف کی ظاہری شکل اور تندرستی بھی قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ضیف نے ماضی میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد برسوں تک وہیل چیئر کا استعمال کیا، جب کہ دوسروں کے مطابق وہ بغیر مدد کے چلنے کے قابل ہیں۔ ضیف، کا مطلب عربی میں "مہمان" ہے، یہ اشارہ ہے کہ یہ نام اسرائیل سے چھپنے کے لیے ان کے مقامات کو تبدیل کرنے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ ضیف اور سنوار اور حماس کے جلاوطن سپریم لیڈر اسماعیل ہنیہ کی گرفتاری کے خواہاں ہیں۔ پراسیکیوٹر کریم خان نے کہا کہ وہ نتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی بھی گرفتاری کے خواہاں ہیں۔
جنگ اور مذاکرات کا کیا مطلب ہے؟
ضیف کے قتل کی کوشش جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے حماس کے کسی ہائی پروفائل رہنما کے قتل کی سب سے بڑی سازش ہے۔ اگر ضیف اس حملے میں ہلاک ہو جاتے تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑی فتح اور حماس کے لیے ایک گہرا نفسیاتی دھچکا سمجھا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: