تل ابیب، اسرائیل: اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو امریکی انتظامیہ سے ناراض ہیں۔ امریکہ کی تنقیدوں سے اب نتن یاہو تلملا جاتے ہیں۔ اتوار کو غزہ میں حماس کے ساتھ جاری جنگ میں اپنے سب سے مضبوط اتحادی امریکہ کی تنقیدوں کو اب وہ ہضم نہیں کر پا رہے۔ نتن یایو نے امریکہ کی جانب سے ان کی قیادت کے خلاف بڑھتی ہوئی تنقید اور اسرائیل میں انتخابات کے مطالبے کو مکمل طور پر نامناسب قرار دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں، امریکی سینیٹ کے اکثریتی رہنما اور ملک کے اعلیٰ ترین یہودی عہدیدار اور اسرائیل کے مضبوط حامی چک شومر نے اسرائیل سے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نتن یاہو "اپنا راستہ کھو چکے ہیں۔" امریکی صدر جو بائیڈن نے شمر کے مطالبے کی حمایت کی تھی اور اس سے قبل نتن یاہو پر الزام لگایا تھا کہ وہ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے اسرائیل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
نتن یاہو نے فاکس نیوز پر دیئے بیان میں شومر کے تبصروں کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل نے 2001 میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کبھی بھی نئے امریکی انتخابات کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
نتن یاہو نے کہا کہ، "ہم بنانا جمہوریہ نہیں ہیں،" انہوں نے کہا۔ "اسرائیل کے لوگ طئے کریں گے کہ یہاں انتخابات کب ہوں گے، اور وہ کس کو منتخب کریں گے، اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جو ہم پر تھوپ دی جائے گی۔"
جب سی این این کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جنگ ختم ہونے کے بعد نئے انتخابات کا عہد کریں گے، تو نتن یاہو نے کہا کہ "میرے خیال میں اس کا فیصلہ اسرائیلی عوام کو کرنا ہے۔"
اتوار کے اوائل میں، نتن یاہو نے کہا کہ ملک میں نئے سرے سے انتخابات کا مطالبہ اسرائیل کو جنگ کو روکنے اور چھ ماہ کے لیے ملک کو مفلوج کرنے پر مجبور کر دیں گا۔ اس موقع پر نتن یاہو نے رفح میں حماس پر حملہ کرنے کے اپنے عزم کو بھی دہرایا اور کہا کہ ان کی حکومت نے اس طرح کے آپریشن کے لیے فوجی منصوبوں کی منظوری دی ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم رفح میں آپریشن کریں گے۔ اس میں کئی ہفتے لگیں گے۔"
امریکہ نے اسرائیل کو کلیدی فوجی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے تاہم جنوبی غزہ کے شہر رفح پر ایک منصوبہ بند اسرائیلی حملے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے فاکس کو بتایا کہ امریکہ نے ابھی تک رفح کے لیے اسرائیلی منصوبہ نہیں دیکھا ہے۔
امریکہ مذاکرات کے ایک نئے دور کی حمایت کرتا ہے جس کا مقصد حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی واپسی کے بدلے میں جنگ بندی کرنا ہے۔ ان مذاکرات کے لیے اسرائیلی وفد کے اتوار کی شام سیکیورٹی کابینہ اور جنگی کابینہ کے اجلاسوں کے بعد قطر روانہ ہونے کی توقع تھی۔
یہ بھی پڑھیں: