لندن: برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات 2024 تاریخی رہے۔ اس سال تحلیل ہوئی برطانوی پارلیمنٹ میں جہاں 19مسلم ارکان تھے، ان کی تعداد 2024 میں بڑھ کر 23 ہو گئی ہے۔ 300سالہ پرانی برطانیہ کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ 23 مسلم امیدوار پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ، 1997 میں کامیاب ہوکر رکن پارلیمنٹ بننے والے پہلے ایشین پاکستانی نژاد مسلمان لیبر پارٹی سے محمد سرور تھے تو وہیں رشی سوناک پہلے ایشین نژاد برطانوی وزیراعظم بنے جن کا تعلق کنزرویٹیو پارٹی سے ہے۔ ایشین پاکستان نژاد محمد سرور بعد میں پاکستان میں دو مرتبہ گورنر پنجاب کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات 2024 کے لیے 6 جون کو ووٹ ڈالے گئے۔ پارلیمنٹ کی 650نشستوں کیلئے ساڑھے 4ہزار سے زائد امیدوار مدمقابل تھے۔ عام انتخابات میں لاکھوں مسلمان ووٹرز سمیت تقریباً 5 کروڑ ووٹرز نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ برطانیہ کی مسلمانوں نے مسلم ووٹ کے نام سے دسمبر 2023 میں ایک مہم شروع کی تھی، جس کا واحد مقصد مقامی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا تھا۔
برطانیہ کے عام انتخابات میں لیبر اور آزاد امیدواروں کے لیے یہ تاریخی لمحہ ہے جب پارلیمانی نشستوں پر پہلی بار مسلمان امیدواروں نے اتنی بڑی تعداد میں کامیابی حاصل کی ہے۔
لیبر پارٹی کے صادق الحسن نے تاریخی طور پر پہلی بار نارتھ سمرسیٹ کے ٹوری کے گڑھ پر قبضہ کیا ہے۔ جب کہ کئی فلسطین حامی متعدد آزاد امیدواروں نے نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔
نئے لیبر ارکان پارلیمان میں نارتھ سمرسیٹ میں صادق الحسن، شیفیلڈ سینٹرل میں ابتسام محمد اور گلاسگو ساؤتھ ویسٹ میں سکاٹش لیبر کے زبیر احمد کے نام شامل ہیں۔
فلسطین حامی کئی مسلم آزاد امیدواروں نے لیبر پارٹی کے گڑھ تسلیم کی جانے والی نشستوں پر قبضہ جمایا ہے جن میں ساؤتھ میں شوکت ایڈم، ڈیوسبری اور بٹلی میں اقبال محمد، بلیک برن میں عدنان حسین اور برمنگھم پیری بار میں ایوب خان کے نام شامل ہیں۔
برٹش فیوچر کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کی نئی پارلیمنٹ تاریخ میں سب سے زیادہ متنوع ہوگی، جس میں نسلی اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے 89 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔
برطانوی الیکشن میں لیبر پارٹی کے مسلم امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستانی نژاد لیبر پارٹی رکن یاسمین قریشی تیسری مرتبہ بولٹن سے اپنی سیٹ کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئیں ہیں۔ وہیں برمنگھم لیڈی ووڈ میں شبانہ محمود نے فتح کا جھنڈا گاڑھ دیا تو پاکستانی نژاد امیدوار نوشابہ خان نے لیبرپارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی نژاد امیدوار زبیر احمد بھی لیبرپارٹی کے ٹکٹ پر گلاسگو سے کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستانی نثراد برطانوی شہری افضل خان اس مرتبہ پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو وہیں برمنگھم سے طاہرعلی ایک بار پھر اپنی سیٹ جیت گئے۔
برطانیہ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جس طرح مسلم آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح ووٹروں کی تعدا بھی بڑھ رہی ہے۔ انگلینڈ اور ویلز کی1961 کی مردم شمار ی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی آبادی 50ہزار تھی، جو 1971میں بڑھ کر دو لاکھ 26 ہزار ہوئی اور 1981میں پانچ لاکھ 53 ہزار، تو وہیں 1991 میں9 لاکھ 50ہزار ہوگئی۔ یہاں 2001میں مسلم آبادی 16 لاکھ تک پہنچ گئی، 2011میں یہ ہندسہ 27لاکھ 60ہزار 66اور 2021 میں38لاکھ 68 ہزار ایک سو 33ریکارڈ کیا گیا۔
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 کی مردم شماری میں برطانیہ اور ویلز میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 6.5 فیصد تھی۔ اسکاٹ لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی ایک لاکھ 19 ہزہار 872 ہے، جو مجموعی آبادی کا 2.2 فیصد ہے۔ برمنگھم، مانچسٹر اور بریڈ فورڈ جیسے شہروں کا شمار برطانیہ کے ان علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں مسلمان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: