نئی دہلی: سال 1938 میں والٹ ڈزنی کی طرف سے لکھا گیا ایک خط ان دنوں خوب وائرل ہو رہا ہے۔ یہ خط والٹ ڈزنی کی جانب سے 86 سال قبل ایک خاتون کو بھیجا گیا تھا۔ نوکری مسترد کرنے والا یہ خط سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس خط کے وائرل ہونے کی وجہ صنفی امتیاز ہے۔ یہ خط خاتون امیدوار مس فورڈ کے نام ہے، جنھوں نے نوکری کے لیے والٹ ڈزنی سے رابطہ کیا تھا۔
مس فورڈ نامی اس خاتون نے مبینہ طور پر امریکی فلم پروڈیوسر کے سیاہی اور پینٹنگ کے شعبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تھی۔ جس کے بعد کمپنی کی طرف سے جو جواب آیا تھا وہ وائرل ہونے کے لئے کافی تھا۔ خط میں لکھا ہے کہ اسکرین کے لیے کارٹون تیار کرنے کے حوالے سے خواتین کوئی تخلیقی کام نہیں کر سکتیں، کیونکہ یہ کام مکمل طور پر نوجوان مرد ہی کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے لڑکیوں کو اس طرح کے کام لیے درست نہیں سمجھا جاتا۔
صنفی امتیاز کی وجہ سے وائرل ہو رہا اس خط میں کیا لکھا ہے۔
خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ والٹ ڈزنی میں خواتین صرف ان ملازمتوں کے لیے اہل ہیں جن کے لیے ہندوستانی سیاہی کے ساتھ صاف سیلولائڈ شیٹس پر کرداروں کو ڈرائنگ کرنا اور ہدایات کے مطابق الٹی سائیڈ پر پینٹ کے ساتھ نشانات بھرنے کی ضرورت ہے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اینکر یا پینٹر بننے کے لیے دلچسپی رکھنے والے امیدواروں کو اسٹوڈیو آکر اپنے کام کے کچھ نمونے پیش کرنے ہونگے۔
اس خط کو ڈیم دیٹس انٹرسٹٹنگ نام سے ریڈٹ پر شیئر کیا گیا ہے۔ اس پوسٹ پر کئی کافی تبصرے بھی کر رہے ہیں۔ لوگوں کا ردعمل ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔