یروشلم: اتوار کے روز ہزاروں اسرائیلیوں نے غزہ جنگ کے خلاف وسطی یروشلم میں اب تک کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ہزاروں اسرائیلی وسطی یروشلم میں جمع ہوئے اور حکومت مخالف مظاہرے میں شامل ہوئے۔ مظاہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ غزہ میں حماس کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے درجنوں افراد کی رہائی اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے۔
7 اکتوبر کے فوراً بعد اسرائیلی معاشرہ وسیع پیمانے پر متحد تھا، جب حماس نے سرحد پار سے حملے کے دوران تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا تھا۔ تقریباً چھ ماہ کے تنازعے نے وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کی قیادت پر اختلافات کو نئے سرے سے جنم دیا ہے۔
نتن یاہو نے حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن ابھی تک وہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ جنگ سے حماس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن وہ ابھی بھی غزہ میں ڈٹا ہوئی ہے۔
نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران غزہ میں تقریباً نصف یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ لیکن بین الاقوامی ثالثوں کی جانب سے باقی یرغمالیوں کو واپس لانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ بات چیت اتوار کو دوبارہ شروع ہوئی ہے لیکن کامیابی کے آثار بہت کم نظر نہیں آ رہے ہیں۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ اب وقت ختم ہو رہا ہے، اور وہ نتن یاہو کے خلاف احتجاج میں شدت لا رہے ہیں۔
احتجاج میں شامل ایک شخص بوز اتزیلی نے کہا کہ، "ہمیں یقین ہے کہ کوئی بھی یرغمالی اس حکومت کے ساتھ واپس نہیں آئے گا کیونکہ وہ یرغمالیوں کے لیے مذاکرات میں رکاوٹیں ڈالنے میں مصروف ہیں،" بوز اتزیلی کا چچازاد بھائی ایویو اتزیلی اور اس کی بیوی لیات کو 7 اکتوبر کو حماس نے اغوا کیا تھا۔ لیات کو رہا کر دیا گیا لیکن ایویو کو قتل کر دیا گیا، اور اس کی لاش غزہ میں ہے۔ بوز اتزیلی کے مطابق نتن یاہو صرف اپنے ذاتی مفادات میں کام کر رہے ہیں۔
مظاہرین نے سات اکتوبر کی ناکامیوں کے لیے نتن یاہو کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ، پچھلے سال ان کی عدالتی تبدیلی کی کوشش پر گہری سیاسی تقسیم نے حملے سے پہلے اسرائیل کو کمزور کر دیا۔ کچھ اس پر اسرائیل کے سب سے اہم اتحادی امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔
نتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آج انتخابات ہوئے تو نتن یاہو اور ان کا اتحاد اپنے حریفوں سے بہت پیچھے ہے۔
جب تک ان کا حکومتی اتحاد جلد ٹوٹ نہیں جاتا، نیتن یاہو 2026 کے موسم بہار تک انتخابات کا سامنا نہیں کریں گے۔
یرغمالیوں کے بہت سے خاندانوں نے نتن یاہو کی عوامی سطح پر مذمت کرنے سے اب تک گریز کیا تھا لیکن جیسے جیسے ان کا غصہ بڑھ رہا ہے، ان میں سے کچھ اب اسرائیلی وزیراعظم کی مخالفت میں کھل کر سامنے آرہے ہیں اور انہوں نے اتوار کے حکومت مخالف مظاہرے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
احتجاجیوں کا ہجوم پارلیمنٹ کی عمارت کے ارد گرد بلاکس تک پھیلا ہوا تھا، اور منتظمین نے کئی دنوں تک مظاہرے جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ نئے انتخابات شیڈول سے تقریباً دو سال قبل کرائے جائیں۔ ہزاروں افراد نے اتوار کو تل ابیب میں بھی مظاہرہ کیا، جہاں ایک رات پہلے ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا۔
نتن یاہو نے اتوار کی رات میں ہرنیا کی سرجری کروانے سے پہلے قومی سطح پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں کہا کہ وہ یرغمالیون کے خاندانوں کے درد کو سمجھتے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نئے انتخابات کا مطالبہ غزہ میں فتح سے قبل، اسرائیل کو چھ سے آٹھ ماہ تک مفلوج کر دے گا اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات کو روک دے گا۔
اپنے خطاب میں، نتن یاہو نے غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فوجی زمینی حملے کے لیے اپنے عزم کو بھی دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ "رفح میں داخل ہوئے بغیر کوئی فتح حاصل نہیں ہوگی،" انہوں نے مزید کہا کہ امریکی دباؤ انہیں روک نہیں سکے گا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی بٹالین وہاں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- نتن یاہو کو غزہ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تاریخ یاد کرے گی: فرانسیسی سینیٹر
- غزہ جنگ بندی میں نتن یاہو اور حماس کی سودے بازی بنی رکاوٹ
- نتن یاہو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ میں رکاوٹ، بائیڈن کے قریبی ساتھی کا دعویٰ
- اسرائیلی عوام کا نتن یاہو سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ
- غزہ جنگ کی حکمت عملی پر اعلیٰ اسرائیلی حکام کے درمیان اختلافات ابھرنے لگے
- اسرائیل کی نتن یاہو حکومت کو جھٹکا، سپریم کورٹ نے متنازع عدالتی قانون کو منسوخ کر دیا