حیدرآباد: سیکس ورکرز کا عالمی دن ہر سال 2 جون کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن سیکس ورکرز کو عزت دینے اور ان کی مشکلات کو تسلیم کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ سیکس ورکرز کا عالمی دن، ان کے بہتر حالات اور احترام کی وکالت کرتا ہے۔یہ دن دنیا کے مختلف حصوں میں سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے لڑنے والوں کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سیکس ورکرز کو بلاجواز تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے کام کے سلسلے میں قوانین اور حقوق کی کمی کئی دہائیوں سے ایک تشویشناک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے سیکس ورکرز کا عالمی دن منانا انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
سیکس ورکرز کا عالمی دن دو جون ہی کو کیوں منایا جاتا ہے؟
دو جون 1975 کو سیکڑوں سیکس ورکرز نے فرانس کے شہر لیون میں سینٹ-نذیر چرچ پر قبضہ کر لیا تاکہ پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان پر جرمانے اور سیکس ورکرز کے قتل اور استحصال کی تحقیقات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال سکیں۔
سیکس ورکرز نے چرچ پر قبضے کے بعد 10 دن تک احتجاج کرنے کا منصوبہ بھی بنایا لیکن مظاہرین کو پولیس نے زبردستی اور پرتشدد طریقے سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد اس احتجاج نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ جس نے کمیونٹی اور حقوق نسواں کی تنظیموں کی حمایت بھی حاصل کی۔
اس تحریک نے بین الاقوامی سطح پر اس وقت زور پکڑا جب 7 جون 1975 کو اس تحریک کے رہنما اولا نے ایک صحافی کو بتایا کہ ہم شدید ناانصافی کا شکار ہیں۔ اس احتجاج اور وسیع پیمانے پر عالمی توجہ نے پوری دنیا میں ایک تحریک کو جنم دیا اور اس طرح 2 جون کو سیکس ورکرز کے عالمی دن کے طور پر نام منایا جانے لگا۔
اس دن کا مقصد کیا ہے:
صحت مند زندگی اور بہتر حالات سیکس ورکرز کا حق ہے۔ انہیں اکثر اپنے پیشہ وارانہ کام میں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سیکس ورکرز میں متعدی بیماریوں کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ سیکس ورکرز کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں ان کو درپیش مشکلات کے بارے میں بیداری پیدا کی جاتی ہے۔
سیکس ورکرز کو درپیش چیلنجز:
سیکس ورکرز کو صحت اور انسانی حقوق کے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے کہ ایچ آئی وی انفیکشن کا بڑھتا ہوا خطرہ، ان کے علاج کا خراب نظام اور ادارہ جاتی تشدد، مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزیاں۔ دنیا بھر میں سیکس ورکرز کو انصاف کے حصول میں بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکس ورکرز اکثر خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں اور جہاں ان کا استحصال کیا جاتا ہے، جس سے ان کی صحت پر شدید منفی اثر پڑتا ہے۔
بھارت میں سیکس ورکرز کے حقوق:
جون 2022 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے سیکس کو ایک پیشے کے طور پر نوٹ کیا اور کہا کہ سیکس ورکرز کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور جب کوئی بالغ رضامندی سے جنسی کام میں ملوث ہوتا ہے تو سرکاری اہلکاروں کو مداخلت یا کوئی مجرمانہ کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ سیکس ورکرز اور ان کے بچے بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 (زندگی کا حق) کے تحت آتے ہیں۔
بھارت میں جنسی کام غیر قانونی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ اور غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ، 1956 کے تحت چلتا ہے۔ انڈین پینل کوڈ (IPC) اور جووینائل جسٹس ایکٹ میں بھی بھارت میں جنسی کام اور اسمگلنگ سے متعلق دفعات ہیں۔
وہ ممالک جہاں جسم فروشی قانونی ہے:
دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 42 ملین سیکس ورکرز (طوائفیں) ہیں۔آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، موزمبیق، ترکی، اریٹیریا، سیرا لیون، یونان، ہنگری، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، یوراگوئے، بولیویا، پیرو، ایکواڈور، کولمبیا اور وینزویلا میں جسم فروشی قانونی ہے۔