ETV Bharat / international

بہت قتل عام ہو چکا، اسرائیل اپنا ہاتھ روکے: جرمن چانسلر

German Chancellor visits Israel جرمن چانسلر نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم سے شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد اور غزہ تک پہنچنے والی ناکافی امداد کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور یہ بھی کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم فلسطینیوں کو غزہ میں بھوکا اورپیاسا دیکھتے رہیں۔

author img

By UNI (United News of India)

Published : Mar 18, 2024, 8:56 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

برلن: جرمن چانسلر اولاف شولز نے اپنے اسرائیلی دورے کے دوران کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم فلسطینیوں کو اس حال میں دیکھتے رہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور جو غزہ کی پٹی پر بھوک اور تباہی سے دوچار ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ غزہ میں 31 ہزار سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں اور تقریباً پورے غزہ کو تباہ کر کے لاکھوں فلسطینیوں کو نقل مکانی مکانی پر مجبور کر دیا گیا ہے، جرمن چانسلر نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کو خوفناک حد تک انسانیت کے لیے نقصاندہ قرار دیا ہے۔

شولز، اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد القدس میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے، انہوں نے شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور غزہ کے لوگوں کے لیے انتہائی ناکافی امداد پہنچنے دینے پر اپنی تشویش وزیر اعظم کے سامنے رکھی جہاں امدادی اداروں کے مطابق قحط پڑا ہوا ہے۔

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پانچ ماہ تک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب کی طرح حمایت کرنے والے کئی دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی اب اسی طرح کی تشویش اور خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے البتہ جرمن رہنما کی طرف سے یہ انتباہ غیر معمولی طور پر سخت تھا۔

واضح رہے کہ بلا شبہ جرمنی بھی وہی ملک ہے جس نے اسرائیل کے حق دفاع پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ شولز نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کی حالت جس قدر تشویش ناک ہوتی جائے گی اسی قدر سوال جنم لیتا رہے گا یہاں تک کہ یہ سوال بھی اہم نہ رہے گا کہ ہدف کتنا اہم تھا، ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ کے پاس اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے گزشتہ جمعہ کے روز رفح پر حملے کے لیے فوجی منصوبے کی باضابطہ منظوری دی ہے۔ شولز نے اس دورہ اسرائیل سے پہلے اردن کے شاہ عبداللہ سے اردن میں ملاقات کی تھی۔ جو کہ بحیرہ احمر کی بندرگاہ عقبہ پر ہوئی۔

جرمن چانسلر نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹوں کے بارے میں کہا کہ میں نے اس بارے میں نتن یاہو سے بات کی ہے کہ اس سلسے کی حالت بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم فلسطینیوں کو بھوک کے خطرے سے دوچار دیکھ کر محض کھڑے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسے نہیں ہو سکتے نہ ہی یہ وہ چیز ہو سکتی ہے جس کے لیے ہم کھڑے ہیں۔

دو ریاستی حل کے بارے میں چانسلر شولز نے کہا کہ پائیدار استحکام اونچی دیواروں سے نہیں آئے گا اور نہ ہی یہ گہری خندقوں سے آئے گا۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ استحکام مثبت تناظر سے ممکن ہوگا ایسا مثبت تناظر جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ہو، مطلب یہ کہ دو ریاستی حل ضروری ہے۔

انہوں نے اس پس منظر میں فلسطینی انتظامیہ کو بھی اصلاحات کے لیے کہا نیز، انفرادی سطح پر بہتری کے ساتھ ساتھ اجتماعی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کے لیے بھی انہوں نے زور دیا۔

چانسلر نے مزید کہا کہ اسرائیل کی نئی نسلوں کے لیے پائیدار استحکام و سلامتی فلسطینیوں سے جڑا ہوا ہے جبکہ دہشت گردی کو بھی صرف فوجی ذرائع سے شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو نے کہا کہ ایک معاہدہ جو اسرائیل کے نزدیک کمزور بنیادوں پر ہوگا وہ ایک ناپائیدار امن ہی لا سکتا ہے۔ (یو این آئی)

یہ بھی پڑھیں:

غزہ: اسرائیلی حملوں میں اب تک 13000 سے زائد بچے ہلاک، دیگر شدید غذائی قلت کا شکار: یونیسیف

برلن: جرمن چانسلر اولاف شولز نے اپنے اسرائیلی دورے کے دوران کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم فلسطینیوں کو اس حال میں دیکھتے رہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور جو غزہ کی پٹی پر بھوک اور تباہی سے دوچار ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ غزہ میں 31 ہزار سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں اور تقریباً پورے غزہ کو تباہ کر کے لاکھوں فلسطینیوں کو نقل مکانی مکانی پر مجبور کر دیا گیا ہے، جرمن چانسلر نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کو خوفناک حد تک انسانیت کے لیے نقصاندہ قرار دیا ہے۔

شولز، اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد القدس میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے، انہوں نے شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور غزہ کے لوگوں کے لیے انتہائی ناکافی امداد پہنچنے دینے پر اپنی تشویش وزیر اعظم کے سامنے رکھی جہاں امدادی اداروں کے مطابق قحط پڑا ہوا ہے۔

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پانچ ماہ تک اسرائیل کے ساتھ یک جان دو قالب کی طرح حمایت کرنے والے کئی دوسرے ملکوں کی طرف سے بھی اب اسی طرح کی تشویش اور خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے البتہ جرمن رہنما کی طرف سے یہ انتباہ غیر معمولی طور پر سخت تھا۔

واضح رہے کہ بلا شبہ جرمنی بھی وہی ملک ہے جس نے اسرائیل کے حق دفاع پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ شولز نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کی حالت جس قدر تشویش ناک ہوتی جائے گی اسی قدر سوال جنم لیتا رہے گا یہاں تک کہ یہ سوال بھی اہم نہ رہے گا کہ ہدف کتنا اہم تھا، ان کا کہنا تھا کہ کیا آپ کے پاس اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے گزشتہ جمعہ کے روز رفح پر حملے کے لیے فوجی منصوبے کی باضابطہ منظوری دی ہے۔ شولز نے اس دورہ اسرائیل سے پہلے اردن کے شاہ عبداللہ سے اردن میں ملاقات کی تھی۔ جو کہ بحیرہ احمر کی بندرگاہ عقبہ پر ہوئی۔

جرمن چانسلر نے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹوں کے بارے میں کہا کہ میں نے اس بارے میں نتن یاہو سے بات کی ہے کہ اس سلسے کی حالت بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بہت زیادہ بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم فلسطینیوں کو بھوک کے خطرے سے دوچار دیکھ کر محض کھڑے نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسے نہیں ہو سکتے نہ ہی یہ وہ چیز ہو سکتی ہے جس کے لیے ہم کھڑے ہیں۔

دو ریاستی حل کے بارے میں چانسلر شولز نے کہا کہ پائیدار استحکام اونچی دیواروں سے نہیں آئے گا اور نہ ہی یہ گہری خندقوں سے آئے گا۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ استحکام مثبت تناظر سے ممکن ہوگا ایسا مثبت تناظر جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ہو، مطلب یہ کہ دو ریاستی حل ضروری ہے۔

انہوں نے اس پس منظر میں فلسطینی انتظامیہ کو بھی اصلاحات کے لیے کہا نیز، انفرادی سطح پر بہتری کے ساتھ ساتھ اجتماعی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کے لیے بھی انہوں نے زور دیا۔

چانسلر نے مزید کہا کہ اسرائیل کی نئی نسلوں کے لیے پائیدار استحکام و سلامتی فلسطینیوں سے جڑا ہوا ہے جبکہ دہشت گردی کو بھی صرف فوجی ذرائع سے شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو نے کہا کہ ایک معاہدہ جو اسرائیل کے نزدیک کمزور بنیادوں پر ہوگا وہ ایک ناپائیدار امن ہی لا سکتا ہے۔ (یو این آئی)

یہ بھی پڑھیں:

غزہ: اسرائیلی حملوں میں اب تک 13000 سے زائد بچے ہلاک، دیگر شدید غذائی قلت کا شکار: یونیسیف

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.