اقوام متحدہ: ایک آزاد فلسطینی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے یورپی، عرب اور مسلم ممالک نے ایک نئی پہل شروع کر دی ہے۔ ناروے کے وزیر خارجہ نے ایسپن بارتھ ایدے نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ، یورپی، عرب اور اسلامی ممالک نے فلسطینی ریاست اور اس کے اداروں کی حمایت کو مضبوط بنانے اور غزہ میں جنگ اور لبنان میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے بعد مستقبل کی تیاری کے لیے ایک پہل شروع کی ہے۔
ناروے کے وزیر خارجہ نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ "عالمی برادری میں مغربی ممالک، عرب ممالک اور گلوبل ساؤتھ سے اس بات پر اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ ہمیں ایک فلسطینی اتھارٹی، ایک فلسطینی حکومت، ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے۔ ایسپن بارتھ ایدے نے زور دے کر کہا کہ، فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
ایدے نے فلسطینی ریاست کے قیام کی پہل پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ، اسرائیل اور فلسطینیوں کے سلامتی کے مفادات، کئی دہائیوں کے تنازعات کے بعد تعلقات کو تسلیم اور معمول پر لانے کے علاوہ حماس کو ایک مسلح گروپ کے طور پر غیر فعال کرنے سمیت بہت سے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ناروے کے چیف ڈپلومیٹ نے اس کام کو ایک پہیلی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ، یہ ایک بڑی پہیلی کے ٹکڑے ہیں، اور تمام ٹکڑوں کو جگہ پر رکھنا ضروری ہے۔
حالانکہ یہ کہنا مشکل ہی ہے کہ اگر اس پہیلی کے تمام ٹکڑوں کو جوڑ بھی لیا جاتا ہے تو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو اسے قبول کر لیں گے۔ ایدے کا خیال ہے کہ دہائیوں سے ناکام یا تعطل کے شکار مذاکرات کے بعد، ایک آزاد فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے ہمیں ایک نیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ناروے کے وزیر خارجہ کے مطابق ان مسائل پر تیزی سے کام کرنے کے لیے تقریباً 90 ممالک نے حمایت دی ہے۔ جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے عالمی رہنماؤں کے اجلاس سے ہٹ کر ایک سیشن بلایا گیا تھا جس کی ناروے اور سعودی عرب کے وزراء خارجہ نے مشترکہ صدارت کی۔ اس سیشن کا مقصد فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد تھا۔
ناروے 1993 کے اوسلو معاہدے کا ضامن ہے، جسے عربوں اور یہودیوں کے درمیان کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازع میں ایک پیش رفت کے طور پر سراہا گیا، جس نے فلسطینی اتھارٹی کو تشکیل دیا اور فلسطینی اتھارٹی میں خود مختار علاقے قائم کیے تھے۔ ایدے نے کہا کہ 30 سال سے زائد عرصے بعد، اسرائیل کا قبضہ ابھی بھی جاری ہے، اور حتمی تصفیہ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ، مئی میں ناروے نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اب، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 149 نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یورپی، عرب اور مسلم ممالک کی جانب سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے شروع کی گئی نئی پہل پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ کو بتایا کہ، بغیر کسی تاخیر کے اس مسئلہ کو حل کیا جان ہم خود کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ آزاد فلسطین کو محفوظ اسرائیل کے ساتھ لانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ بوریل نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اتحاد کی پہلی ملاقاتیں ریاض، سعودی عرب اور برسلز میں ہوں گی۔
بوریل نے دو ریاستی حل کی مخالفت کرنے والے ہر شخص سے پوچھا کہ اگر یہ حل نہیں ہے تو حل کیا ہے، اور کیا اسے نافذ کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ اس اقدام پر کام تیزی سے آگے بڑھے گا۔
ناروے کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ نئی کوشش 2002 کے عرب امن اقدام پر بنائی گئی ہے، لیکن اس میں آج کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے تازہ پن دیا دیا گیا ہے۔
2002 کے عرب امن اقدام کی رو سے عرب لیگ اور 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم نے توثیق کی تھی کہ اگر اسرائیل 1967 میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے مکمل انخلا کرتا ہے تو تعلقات کو معمول پر لایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: