نئی دہلی: ایران کے حمایت یافتہ لبنانی مسلح گروپ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میں موت کے بعد ایران نے اسرائیل پر کم از کم 181 بیلسٹک میزائیل داغ دیئے۔ ایران کے اس حملے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی عروج پر ہے۔ حملے کے روز سے ہی اسرائیل میں میٹنگوں کا دور جاری ہے، اور خبر ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔ ادھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ ایسا بیان دے دیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ٹرمپ کا بیان وائرل ہو رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرے۔ ٹرمپ کا بیان اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وہ نہ صرف اسرائیل کے بھرپور حمایتی ہیں بلکہ وہ امریکی صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار بھی ہیں۔
🇺🇲🇮🇷 " iranian nuclear facilities are the things you want to hit. it's the biggest risk we have. biden should've said hit them first, and worry later." - donald trump. pic.twitter.com/iHHj09To0o
— DD Geopolitics (@DD_Geopolitics) October 5, 2024
ٹرمپ کا بیان بائیڈن کے بیان کے برعکس:
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا بیان ٹرمپ کے بیان کے بالکل برعکس ہے۔ بائیڈن کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔ بائیڈن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر اسرائیل، ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔
بائیڈن کے سخت انتباہ کے باوجود اسرائیل نے امریکہ کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی کہ وہ ایران پر حملہ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن کو اسرائیل کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے کہنا چاہیے تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل کی خبر کے مطابق اسرائیل ایران کے اہم اہداف جیسے تیل، گیس، جوہری مقامات اور فضائی دفاعی نظام پر حملہ کر سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق ایسے حملے سے ایران کی کمر ٹوٹ جائے گی۔
ایران کے یکم اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا ہے کہ، ایران نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اسے اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اسرائیل میں ایران پر حملے کی حمایت:
چاہے اسرائیل کے وزیر دفاع گیلنٹ ہوں، اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ ہوں یا اسرائیل کے سرکردہ اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ ہر کوئی ایران پر حملے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایران کو ہی نہیں بلکہ شام، لبنان اور یمن کو بھی واضح پیغام دینا چاہیے، یہ تمام ممالک ایران کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔
I spent this evening in the command and control center together with senior defense officials, closely watching the IDF’s successful defense against the Iranian missile attack on Israel.
— יואב גלנט - Yoav Gallant (@yoavgallant) October 1, 2024
Iran has not learned a simple lesson - those who attack the State of Israel, pay a heavy…
اس سال اپریل کے مہینے میں بھی ایران نے اسرائیل پر 300 کے قریب میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔ ان میں کچھ ڈرون بھی شامل تھے۔ ایران نے یہ حملہ اس وقت کیا تھا جب اسرائیل نے بیروت میں ایرانی سفارتخانے پر ایک فضائی حملہ کرتے ہوئے کئی ایرانی جنرلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ ہوا تو کیا ہو سکتا ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کا جوہری پروگرام مبینہ طور پر شہری استعمال کے لیے ہے۔ لیکن اگر اس پر حملہ کیا گیا تو صورتحال سنگین ہو سکتی ہے۔ اس کی آڑ میں ایران ان شہری تنصیبات کے بدلے اسے ایٹمی بم میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام پہاڑوں میں ہیں، اس لیے وہاں حملہ کر کے انہیں تباہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ بحث بھی جاری ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ ہوا اور ایران بم بنانے کی راہ پر گامزن ہوا تو پورے مشرق وسطیٰ کے حالات سنگین ہو جائیں گے۔ ایران کے بعد سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک بھی بم بنانے کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں اور امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ایٹمی طاقت بن جائے۔
یہ بھی پڑھیں: